خیبرپختونخوا میں مفت، لازمی تعلیم کے قانون پر عملدرآمد نہ ہوسکا

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2021
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا جواز صوبے بھر میں اسکول سے باہر کے بچوں کو داخل کرنا ہے—فائل فوٹو: اے پی
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا جواز صوبے بھر میں اسکول سے باہر کے بچوں کو داخل کرنا ہے—فائل فوٹو: اے پی

پشاور: خیبرپختونخوا کا محکمہ تعلیم بچوں کو مفت پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کی لازمی فراہمی کے لیے 4 سال قبل بنائی گئی قانون سازی کو نافذ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے رواں سال 14 اپریل کو صوبائی اسمبلی سے خیبر پختونخوا کو مفت اور لازمی پرائمری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بل 2017 منظور کرایا تھا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: اسکولوں میں بہتر نظام تعلیم کیلئے نیا منصوبہ

پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ذرائع نے بتایا کہ مفت پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن پر قانون سازی سرد خانے میں ہے کیونکہ اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا جواز صوبے بھر میں اسکول سے باہر کے بچوں کو داخل کرنا ہے۔

قانون کے سیکشن 3 (1) کے مطابق حکومت خیبر پختونخوا میں 6 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت، لازمی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم فراہم کرے گی۔

صوبائی حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 7 ضم شدہ قبائلی اضلاع کی 52 فیصد سے زائد آبادی ناخواندہ ہے جبکہ جو لوگ ابتدائی سطح تک تعلیم حاصل کر چکے ہیں وہ تعلیم یافتہ آبادی کا 22 فیصد بنتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: طلبہ کو امتحان کی تیاری کیلئے آن لائن ایپ متعارف

یہ سروے مشترکہ طور پر پلاننگ اینڈ ڈیوپلمنٹ ڈپارٹمنٹ، مرجڈ ایریاز گورننس پروگرام اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے برطانیہ کے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس کی مالی مدد سے کیا۔

اس مشق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متوسط درجے کی باضابطہ تعلیم حاصل کرنے والے افراد تعلیم یافتہ آبادی کا 10 فیصد ہیں جبکہ صرف 7 فیصد خواندہ افراد نے میٹرک کیا ہے۔

اس کے مطابق صرف 3.5 فیصد آبادی نے انٹرمیڈیٹ لیول تک تعلیم حاصل کی ہے جبکہ تقریباً دو فیصد کے پاس وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں بیچلر کی ڈگریاں ہیں۔

صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل اے 25 کی روشنی میں قانون بنایا تھا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی، آرٹیکل کو 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا۔

قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ والدین جو اپنے بچوں کو بغیر کسی مناسب وجہ کے اسکول میں داخل کرنے میں ناکام رہے ہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا ہو سکتی ہے جو ایک ماہ یا جرمانہ ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کابینہ کی ’لازمی تعلیم ایکٹ‘ کی منظوری

عہدیداروں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم نے گزشتہ 4 برس سے زیادہ عرصے کے دوران ان قوانین کو وضع نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً دو سال قبل محکمہ تعلیم نے قواعد تجویز کیے تھے جو کئی ماہ تک تعلیم اور قانون کے محکموں کے درمیان خامیوں کو دور کرنے کے لیے بند رہے۔

محکمہ تعلیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ محکمے میں کسی نے مجوزہ قوانین کے بارے میں اپ ڈیٹ لینے کی زحمت نہیں کی۔

اس معاملے پر ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے وزیر شہرام تراکئی نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

تاہم محکمہ تعلیم کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ پہلے محکمے نے مفت اور لازمی پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے بارے میں فیصلہ کیا کیونکہ کچھ خامیاں تھیں لیکن پھر انہوں نے موجودہ قانون کی جگہ دوسرا قانون لانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے یو این ڈی پی سے درخواست کی کہ وہ مسودہ تیار کرنے میں مدد کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ یو این ڈی پی مجوزہ قانون سازی کرتا ہے اور اسے صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لیے محکمہ تعلیم کے حوالے کرتا ہے لیکن یہ سرد خانے میں چلا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں