حالیہ تجربہ ہائپرسونک میزائل کا نہیں، خلائی جہاز کا تھا، چین

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2021
ژاؤ لیجیان نے کہا کہ یہ تجریہ معمول کے خلائی طیارے کا تھا — فوٹو: ژاؤ لیجیان ٹوئٹر
ژاؤ لیجیان نے کہا کہ یہ تجریہ معمول کے خلائی طیارے کا تھا — فوٹو: ژاؤ لیجیان ٹوئٹر

چین نے حال ہی میں ہائپرسونک میزائل کے تجربے سے متعلق رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے خلائی جہاز کا تجربہ کیا تھا تاکہ دوبارہ استعمال کے قابل ٹیکنالوجیز کا ٹرائل کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی جریدے ’فنانشل ٹائمز’ نے رپورٹ کیا تھا کہ بیجنگ نے اگست میں جوہری صلاحیت کے حامل میزائل کا تجربہ کیا تھا جس نے ’لو اوربٹ‘ میں دنیا کے گرد چکر لگایا اور اپنے ہدف سے کچھ دور جاگرا۔

جریدے کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ہائپرسونک میزائل لانگ مارچ راکٹ کے ذریعے چلایا گیا اور اس کا تجربہ خفیہ رکھا گیا۔

تاہم چین نے ان اطلاعات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مشق دوبارہ استعمال کے قابل ٹیکنالوجی کی تھی جس سے خلائی جہاز کے لانچنگ اخراجات کم کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین کے ہائپرسونک میزائل کے تجربے پر امریکا حیران

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق یہ تجریہ معمول کے خلائی طیارے کا تھا جس سے دوبارہ استعمال کے قابل خلائی طیاروں کی ٹیکنالوجی آزمائی جاتی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل انسانوں کی جانب سے خلا کو پُرامن انسانی مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں آسانی فراہم کرے گا’۔

فنانشل ٹائمز کی خبر، غلط ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ژاؤ لیجیان کا کہنا تھا کہ ’جی، یہ خبر غلط ہے‘۔

چین کے ساتھ ساتھ امریکا، روس اور دیگر پانچ ممالک ہائپرسونک ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔

ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار سے 5 گنا سے زائد سے فاصلہ طے کر سکتے ہیں اور بیلسٹک میزائل کی طرح جوہری وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم بیلسٹک میزائل سطح سے بہت بلند ہونے کے بعد گھوم کر ہدف پر پہنچتے ہیں جبکہ ہائپرسونک میزائل نچلی سطح پر تیز رفتاری سے اڑتے ہیں اور بہت تیزی سے ہدف تک پہنچتے ہیں۔

مزید پڑھیں: چینی میزائل تنصیب، امریکا کے لیے پریشانی کا باعث

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہائپرسونک میزائل حرکت پذیر ہیں جن کا پیچھا کرنا اور ان سے بچنا مشکل ہے۔

امریکا سمیت دیگر ممالک کروز اور بیلسٹک میزائل کے خلاف دفاع کا نظام تشکیل دے چکے ہیں ہائپرسونک میزائل کا پیچھا کرنے اور گرانے سے متعلق ان کی صلاحیت تاحال سوالیہ نشان ہے۔

امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین، جارحانہ انداز میں ٹیکنالوجی بنا رہا ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بیجنگ کی ترقی نے ‘امریکی خفیہ ادارے کو حیران کردیا ہے’۔

تبصرے (0) بند ہیں