ایف آئی اے جہانگیر ترین کا نام 'نو فلائی لسٹ' میں شامل کرانے کی خواہاں نہیں

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
ایف آئی اے جہانگیر ترین کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق شواہد تلاش کررہی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایف آئی اے جہانگیر ترین کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق شواہد تلاش کررہی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے کیسز میں منی ٹریل سے متعلق شواہد تلاش کررہی ہے۔

تاہم ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ وزارت داخلہ سے دونوں رہنماؤں کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست نہیں کرے گی کیوں کہ ’اسے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین گزشتہ ہفتے سے لندن میں ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’طبی معائنے‘ اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے لندن گئے۔

جہانگیر ترین کو چینی اسکینڈل کے 3 مقدمات میں 5 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور دھوکا دہی کے الزامات کا سامنا ہے، ایف آئی اے نے ان کا اور ان کے بیٹے کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی کارروائی شروع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جہانگیر ترین اور علی ترین کی گرفتاری درکار نہیں، ایف آئی اے

اس ضمن میں سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’چونکہ والد اور بیٹے دونوں کے ایف آئی آر میں ذکر کردہ رقم (5 ارب روپے) سے زائد کے اثاثے موجود ہیں اس لیے ادارہ حکومت سے ان کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست کی ضرورت محسوس نہیں کرتا‘۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے دونوں کی مشکوک ٹرانزیکشن کے سلسلے میں منی ٹریل سے متعلق شواہد تلاش کررہا ہے، یہ شواہد ان (دونوں رہنماؤں) کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے نام نو فلائی لسٹ میں شامل ہیں جنہیں ایف آئی اے کے شوگر اسکینڈل میں 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور دھوکے کے الزامات کا سامنا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کو کچھ ماہ قبل اس وقت بھی ریلیف ملا تھا جب ایف آئی اے شوگر اسکینڈل اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں ان کے خلاف ’مجرمانہ شواہد‘ نہ ہونے پر دونوں عدالتوں سے ان کی گرفتاری کی درخواست نہیں کی تھی۔

مزید پڑھیں: جہانگیر ترین نے پنجاب نمبر گیم میں اپنے کردار کا اعتراف کرلیا

کہا جارہا تھا کہ جہانگیر ترین کو ملنے والے ریلیف کی وجہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 40 اراکین اسمبلی کا دباؤ تھا جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے رہنما جہانگیر ترین کو ان کے مطابق جعلی کیسز میں انصاف نہیں دیا گیا تو وہ وفاق اور مرکز میں بجٹ کے لیے ووٹ نہیں دیں گے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے وزیراعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے کی تحقیقات کا ’تجزیہ‘ کیا تھا جس سے متعلق ترین گروپ کے ترجمان ایم این اے راجا ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں (جہانگیر ترین) کو ’کلین چٹ‘ دی تھی۔

ترین گروپ نے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر جہانگیر ترین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔

لاہور کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان نے تو شہزاد اکبر کے عقیدے سے متعلق دعویٰ بھی کردیا تھا لیکن ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد انہوں نے اپنے بے بنیاد الزامات پر شہزاد اکبر سے معافی مانگ لی تھی اور ترین گروپ کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:جہانگیر ترین کیس میں علی ظفر کی تحقیقات کے نتائج کا تنازع شدت اختیار کرگیا

جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع نے کہا تھا کہ وہ (جہانگیر ترین) اپنے دوست عمران خان کی جانب سے دھوکا کھایا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ ایف آئی اے کی جانب سے ان کے خلاف کارروائی عمران خان کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں، جن کے لیے انہوں نے اپنے پیسے خرچ کیے تھے اور خاص طور پر پنجاب حکومت بنانے کے لیے انہیں اقتدار میں لانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں