’امریکا نے اشرف غنی پر طالبان کے ساتھ شراکت داری مبنی اقتدار کیلئے ضروری دباؤ نہیں ڈالا‘

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ اقتدار بانٹنے کےلیے ہرگز تیار نہیں تھے— فائل فوٹو: اے پی
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ اقتدار بانٹنے کےلیے ہرگز تیار نہیں تھے— فائل فوٹو: اے پی

حال ہی میں افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے والے زلمے خلیل زاد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے سابق افغان صدر اشرف غنی پر طالبان سے اقتدار کی شراکت سے متعلق ضروری دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 18 اکتوبر کو عہدے سے دستبردار ہونے کے بعد افغانستانی نژاد امریکی زلمے خلیل زاد نے پہلی مرتبہ غیر ملکی نشریاتی ادارے ’سی بی ایس‘ کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق جوبائیڈن انتظامہ کی جانب سے معاہدے کی شرائط پر تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں افغان جنگجوؤں سے مذاکرات شروع کیے تھے۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 کو واشنگٹن اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت کابل میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ طویل امریکی جنگ ختم کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے زلمے خلیل زاد کی ملاقات، افغان امن عمل پر تبادلہ خیال

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ لیکن یہ ’مشروط پیکج‘ تھا جس میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سمیت وسیع پیمانے پر جنگ بندی کی شرائط شامل تھیں۔

سابق امریکی ایلچی نے کہا کہ صدر جوبائیڈن نے شرائط کو بروکار لائے بغیر وائٹ ہاؤس میں ’تاریخ پر مبنی انخلا‘ کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ میری کاوشوں سے زیادہ بڑا فیصلہ تھا‘۔

زلمے خلیل زاد کی امر کی تصدیق کی کہ حالات ویسے نہیں ہیں جیسے وہ چاہتے تھے۔

مزید پڑھیں: اشرف غنی کے اچانک فرار ہونے سے شراکت اقتدار کا معاہدہ ناکام ہوگیا، زلمے خلیل زاد

انہوں نے کہا کہ طالبان اور کابل کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے تھے اور واشنگٹن کو خطرہ تھا کہ اگر وہ کچھ اور عرصہ ملک میں رہے تو طالبان امریکی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کردیں گے۔

سقوط کابل کا ذمہ دار اشرف غنی کو ٹھہراتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ اقتدار میں شراکت کےلیے ہرگز تیار نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ سیاسی تصفیے پر کابل حکومت کےحالات کو ترجیح دے رہے تھے‘۔

سابق امریکی ایلچی نے کہا کہ ’اور جب یہ واضح ہوگیا کہ امریکا افغانستان چھوڑ رہا ہے تو انہوں نے جنگ کے اثرات کا غلط اندازہ لگانا شروع کردیا تھا جس کے بعد وہ سیاسی تصفیے کے لیے سنجیدہ نہیں تھے‘۔

مزید پڑھیں: افغانستان کیلئے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد مستعفی

امریکی سفیر نے بتایا کہ ’یہ میرا فیصلہ تھا کہ ہم ان پر زیادہ دباؤنہیں ڈالیں گے، ہم سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ وفادار تھے، ہم نے سفارتی انداز اپناتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی‘۔

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ مشروط انخلا کے معاہدہ کے تحت طالبان اقتدار بانٹنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کے پاس شواہد واضح نہیں تھے۔

جو بائیڈن کی جانب سے حتمی انخلا اور امریکی اتحادی افواج کی روانگی کے لیے 31 اگست کی تاریخ دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں