فیس بک نفرت انگیز مواد پھیلا رہا ہے، اس کی جوابدہی کیلئے طریقہ کار مرتب کرنا ہوگا، سابق ملازمہ

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2021
فیس بک لاکھوں صارفین پر مشتمل بڑے گروپس کو منظم کرنے میں ناکام ہورہی ہے— فوٹو:رائٹرز
فیس بک لاکھوں صارفین پر مشتمل بڑے گروپس کو منظم کرنے میں ناکام ہورہی ہے— فوٹو:رائٹرز

فیس بک کی سبق ملازمہ فرانسس ہوگن نے برطانیہ کے قانون سازوں کو فیس بک کے لیے بہتر ضابطے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غصے اور نفرت پر مشتمل مواد پوسٹ کرنا ’بڑھنے کا سب سے آسان طریقہ ہے‘۔

فرانسس ہوگن، جنہوں نے رواں سال کے اوائل میں کمپنی کی اندرونی دستاویزات کا ایک ذخیرہ شیئر کیا تھا جس میں فیس بک پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس کی مصنوعات بچوں کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

انہوں نے اب کہا ہے کہ یہ پلیٹ فارم ’بلاشبہ‘ نفرت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فرانسس ہوگن نے کہا کہ فیس بک نے سب سے زیادہ کلک کیے جانے والے اور اختلافِ رائے پیدا کرنے والے مواد کو ترجیح دیتے ہوئے ’انگیجمنٹ پر مبنی درجہ بندی’ کا استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: فیس بک کمائی کی خاطر نفرت انگیز مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، سابق ملازمہ

امریکی کانگریس میں اس حوالے سے بیان دینے کے ایک ہفتے بعد فرانسس ہوگن نے فیس بک سے متعلق ریگولیٹری آپشنز پر تحقیق کرنے والے برطانوی قانون سازوں کے پینل کو بتایا کہ ’یہ آپ کو انتہا کی طرف دھکیلتی ہے اور یہ نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’غصہ اور نفرت فیس بک پر آگے بڑھنے کا سب سے آسان طریقہ ہے، برے اداکاروں کو الگورتھم کی ترغیب ملتی ہے اور وہ فیس بک کو اوپٹیامائز کرنے کے تمام طریقے تلاش کرتے ہیں‘۔

2019 میں فیس بک کے لیے کام کرنے سے قبل وہ گوگل اور پن ٹرسٹ سمیت کئی کمپنیوں کے لیے کام کرچکی ہیں اور انہیں اُمید تھی کہ وہ فیس بک کو بدلنے میں مدد کریں گی۔

تاہم، 37 سالہ ڈیٹا سائنسدان نے کہا کہ وہ کمپنی کی جانب سے مواد کے انتخاب کے بارے میں فکر مند ہوگئیں اور مئی میں ملازمت چھوڑ دی۔

اس کے بعد انہوں نے امریکی قانون سازوں اور وال سٹریٹ جرنل سے دستاویزات شیئر کی تھیں جس میں گمراہ کن معلومات، نفرت انگیز اور دیگر مواد کے حل میں فیس بک کی ناکامیوں کو ظاہر کیا گیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ کمپنی کو معلوم ہے کہ انسٹاگرام سمیت اس کی مصنوعات نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر جسمانی ساخت کے حوالے سے نقصان پہنچارہی ہیں۔

فرانسس ہوگن نے برطانوی قانون سازوں کو بتایا کہ ’میں بہت پریشان ہوں کہ شاید 14 سالہ بچے کے لیے انسٹاگرام کو محفوظ بنانا ممکن نہ ہو اور مجھے لگتا ہے کہ اسے 10 سالہ بچے کے لیے محفوظ بنانا ممکن ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کس طرح ایک خاتون فیس بک کے مقابلے پر اٹھ کھڑی ہوئی

کمپنی کی ناکامیوں کے وسیع جائزے میں، انہوں نے کہا کہ فیس بک لاکھوں صارفین پر مشتمل بڑے گروپس کو منظم کرنے میں ناکام ہورہی ہے جہاں گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔

دریں اثنا انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنی اپنی غیر انگریزی زبان کی مصنوعات میں بھی کم سرمایہ کاری کر رہی ہے، جو پہلے ہی نسلی اور مذہبی تقسیم کا شکار معاشروں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف 'گلوبل ساؤتھ' بلکہ اپنے معاشروں کے لیے بھی سماجی نقصان کا خیال رکھنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں کمپنیوں کی جوابدہی کے لیے طریقہ کار مرتب کرنے کی ضرورت ہے‘۔

فرانسس ہوگن نے سوشل میڈیا کمپنیوں میں الگورتھم اور مصنوعی ذہانت کے بجائے مزید انسانی مداخلت کا مطالبہ بھی کیا۔

مزید پڑھیں: ’فیس بک بھارت میں مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد کو شفافیت سے نہیں ہٹاتی‘

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں فرانسس ہوگن نے امریکی ٹی وی چینل ’سی بی ایس‘ کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیس بک کو صارفین کی ذہنی صحت یا فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنی کمائی کو اہمیت دیتا ہے۔

وہ فیس بک کے اندرونی باتوں کو سامنے لانے والی اب تک کی سب سے نمایاں شخصیت ہیں اور ان کی جانب سے فیس بک کے پلیٹ فارمز پر بچوں کو نقصان پہنچانے اور سیاسی تشدد کو اکسانے کے الزامات کی حمایت کمپنی کی اپنی تحقیق کے ہزاروں صفحات بھی کرتے ہیں۔

اب تک فیس بک کے جو ورکرز آگے بڑھ کر اس کے خلاف نت نئے انکشافات سامنے لائے ان میں لگ بھگ سب خواتین ہی شامل ہیں اور مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں