متحدہ عرب امارات میں کھیلے جانے والے عالمی کپ میں پاکستان نے اپنا تیسرا مسلسل میچ جیت کر ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل کے لیے اپنی جگہ تقریباََ پکی کرلی ہے۔

کرکٹ کو عجیب اتفاقات کا کھیل کہا جاتا ہے لیکن جس پوزیشن میں پاکستان کی ٹیم آگئی ہے، وہاں سے اس کا سیمی فائنل تک نا پہنچنا ایک ایسا اتقاق ہوگا جس پر کرکٹ کے چاہنے والے مدتوں حیران اور پریشان رہیں گے۔

بھارت اور نیوزی لینڈ جیسے مشکل حریفوں کو شکست دے کر قومی ٹیم تیسرا میچ کھیلنے افغانستان کے خلاف میدان میں اتری تو افغانستان کے کپتان محمد نبی نے ٹاس جیت کر روایت کے خلاف پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور اننگ کے پہلے 6 اوورز کے اختتام پر 4 وکٹوں کے نقصان پر 49 رنز بنائے۔

پاور پلے کے اختتام کے بعد بھی پاکستان نے مخالف ٹیم پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور اگلے 7 اوورز میں صرف 27 رنز دیے اور 2 مزید کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

افغانستان کی اڑان

13 اوورز تک جو افغانستان کی صورتحال تھی اسے دیکھتے ہوئے خیال یہی تھا کہ پاکستانی باؤلرز باآسانی 125 رنز تک محدود کردیں گے، لیکن افغانستان کے کپتان محمد نبی اور گلبدین نائب نے کمال مہارت سے بیٹنگ کی۔

ان دونوں نے وکٹ پر سیٹ ہونے کے لیے ضرور کچھ وقت لیا مگر پھر موقع ملتے ہی رنز بنانے کی رفتار کو تیز کرنا شروع کیا، اور اس سلسلے کو ٹربو گیئر 18ویں اوور میں لگا جب انہوں نے حسن علی کی جانب سے کروائے جانے والے 18ویں اوور میں 21 رنز بنائے۔

اس اوور سے ان دونوں بلے بازوں کو زبردست حوصلہ ملا اور پھر حارث رؤف کی جانب سے کروائے جانے والے 19ویں اوور میں 15 رنز مزید حاصل کرلیے۔ جبکہ 19ویں اوور میں 15رنز سمیٹے۔ ان 2 اوورز میں نقصان کافی ہوگیا تھا، مگر شاہین آفریدی نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور ان کے شاندار 20ویں اوور کی بدولت افغانستان کی ٹیم 150رنز کے نفسیاتی دباؤ کو قائم کرنے والے اسکور تک پہنچنے سے قاصر رہی۔

پاکستان کی باؤلنگ کا جائزہ

پاکستان کا باؤلنگ یونٹ اب تک اس ٹورنامنٹ میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی پیش کر رہا ہے۔ نہ صرف ابتدائی اوورز میں شاہین آفریدی اور عماد وسیم کا کمبینیشن جادو دکھا رہا ہے بلکہ درمیانی اوورز میں بھی صورتحال بہت بہتر ہے، ہاں، آخری کے 5 اوورز میں کچھ کام کرنے کی بالکل ضرورت ہے۔

حسن علی اس میگا ایونٹ میں اب تک پاکستان کے سب سے کمزور باؤلرز ثابت ہوئے ہیں۔ قومی ٹیم کے اگلے دونوں میچ نسبتاً کمزور ٹیموں سے ہیں، اس لیے ٹیم منیجمنٹ کو چاہیے کہ اپنے باؤلنگ یونٹ میں تبدیلی کریں اور حسن علی کی جگہ محمد وسیم جونئر کو موقع دے۔ اس طرح نہ صرف محمد وسیم کی صلاحیتوں کو جانچنے کا موقع ملے گا بلکہ ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے حسن علی مزید محنت کریں گے اور شاید اس محنت اور کوشش کی بدولت وہ اپنی کھوئی ہوئی فارم دوبارہ حاصل کرلیں۔

پاکستان کا محتاط آغاز

اس میگا ایونٹ میں سب سے حیران کن بات یہ رہی کہ قومی ٹیم نہ صرف ہدف کے تعاقب میں کامیابی حاصل کررہی ہے، بلکہ اس حوالے سے بھرپور پلاننگ بھی نظر آرہی ہے۔

افغانستان کے خلاف 148رنز کے تعاقب کے لیے کوئی جلدی نہیں دکھائی گئی۔ پھر اس حوالے سے بھی حکمتِ عملی نظر آئی کہ ابتدائی اوورز میں مجیب الرحمٰن کو سنبھل کر کھیلنا ہے، اگر رنز نہ بھی بنے تو انہیں وکٹ نہیں دینی۔ اگرچہ محمد رضوان ذرا سی غلطی کی وجہ سے آؤٹ ہوگئے مگر مجیب کو باقی سب نے بہت اطمینان سے کھیلا اور انہوں نے اپنے 4 اوورز میں صرف 14رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی۔

لیکن دوسری طرف دیگر باؤلرز کے خلاف رنز بننے کا سلسلہ مستقل جاری تھا۔

راشد خان کا سحر

اٖفغانستان کے کپتان نے جب اننگ کے 11ویں اوور میں راشد خان کو طلب کیا تو اس وقت تک پاکستان نے ایک وکٹ پر 72 رنز بنا لیے تھے۔ بظاہر پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں تھا لیکن راشد نے جب اپنی جادوئی باؤلنگ کا جال بننا شروع کیا تو پاکستان کے بیٹسمین دباؤ کا شکار ہوگئے۔

راشد خان نے اپنے پہلے اوور میں صرف 3 دیے۔ یہ راشد خان کا دباؤ ہی تھا کہ محمد نبی کے اگلے اوور میں فخر زمان نے رن ریٹ بڑھانے کے لیے چھکا لگانے کی کوشش کی تو وہ آؤٹ ہوگئے۔ راشد خان نے اپنے دوسرے اوور میں 8 رنز دیے اور تیسرے اوور میں صرف 4 رنز دیے اور تجربہ کار محمد حفیظ کو پویلین کی راہ بھی دکھا دی۔

اپنے چوتھے اور آخری اوور میں رنز تو راشد خان نے 12 دیے لیکن اپنے اسپیل کی آخری گیند پر بابر اعظم کی وکٹ حاصل کرکے انہوں نے اپنی ٹیم کے لیے جیت کی امید ایک مرتبہ پھر جگا دی۔

آصف علی پاکستان کا نجات دہندہ

بابر اعظم کے آؤٹ ہونے کے بعد جب شعیب ملک کا ساتھ دینے آصف علی کریز پر آئے تو پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 18 گیندوں میں 26 رنز درکار تھے۔ مگر نوین الحق نے 18واں اوور کروایا اور صرف 2 رنز دے کر نہ صرف شعب ملک کی وکٹ بھی حاصل کی بلکہ میچ پر پاکستان کی گرفت بہت کمزور کردی۔

اوور کی آخری بال پر ایک رن لینے کا موقع تھا لیکن آصف علی نے رن نہیں لیا۔ اب پاکستان کو صرف 12 گیندوں 24 رنز درکار تھے۔ اس موقع پر پاکستان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ افغانستان کے اسپنرز اپنے اوور مکمل کرچکے تھے۔

اننگ کا 19واں اوور کریم جنت نے کروایا اور اس اوور میں آصف علی نے 4 مرتبہ گیند کو چھکوں کے لیے براہِ راست باؤنڈری کے باہر پھینک کر پاکستان کو بہت سے نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود فتح دلوا دی۔

آصف اب تک پاکستان کے لیے 2 میچوں میں نجات دہندہ کا کردار ادا کرچکے ہیں۔ آصف علی پاکستان کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ہیں جن کی ٹیم میں سلیکشن پر کافی تنقید ہوئی تھی لیکن اب تک ان کو اس ٹورنامنٹ میں بیٹنگ کے جو دو مواقع ملے ہیں، ان سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے ناقدین کو کرارا جواب دیا ہے۔

اس میچ میں ملنے والی زبردست کامیابی کے سبب نہ صرف قومی ٹیم سیمی فائنل تک تقریباً پہنچ چکی ہے، بلکہ آئی سی سی ٹی20 رینکنگ میں دوسری پوزیشن پر بھی براجمان ہوگئی ہے۔

بنگلہ دیش کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری

ٹی20 ورلڈ کپ میں کل ایک اور اہم میچ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں میں جیسن ہولڈر بھی شامل تھے۔ ہولڈر کو اوبیڈ مکائے کے زخمی ہونی کی وجہ سے ٹیم میں شمولیت کا موقع ملا اور انہوں نے گیند اور بلے دونوں ہی سے اچھا کھیل پیش کرکے ٹیم میں اپنی شمولیت کو درست ثابت کردیا۔

اس میچ میں بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ باؤلرز نے اپنے کپتان کے اس فیصلے کو درست ثابت کیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم ابتدائی 16 اوورز میں صرف 99 رنز بناسکی تھی اور اس کے 4 کھلاڑی بشمول ٹی20 کرکٹ کے بے تاج بادشاہ کرس گیل پویلین لوٹ چکے تھے۔ اس موقع پر نکولس پورن اور جیسن ہولڈر نے خوب ہاتھ دکھائے۔ پورن کے 22 گیندوں پر بنائے گئے 40 رنز اور ہولڈر کے 5 گیندوں پر بنائے گئے 15 رنز نے مقررہ اوورز کے اختتام پر اسکور 142رنز تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش نے اپنی اننگ کا آغاز کیا تو فیلڈنگ کے دوران زخمی ہوجانے والے شکیب الحسن کو محمد نعیم کے ساتھ اننگ کا آغاز کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ حکمتِ عملی کامیاب نہیں رہی اور شکیب الحسن جلد ہی آؤٹ ہوگئے۔ اس میچ میں مشفق الرحیم بھی ٹیم کے لیے کوئی خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے۔

ویسٹ انڈیز کے باؤلرز کو جلدی جلدی وکٹیں تو نہیں مل رہی تھیں لیکن انہوں نے رنز کی رفتار قابو میں رکھی ہوئی تھی جس کے باعث مطلوبہ رن ریٹ میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

آخری اوور میں بنگلہ دیش کو جیت کے لیے 13رنز درکار تھے لیکن کپتان محمود اللہ اور عفیف حسین صرف 9 رنز ہی بنا سکے۔ یوں ویسٹ انڈیز نے اپنے ابتدائی 2 میچ ہارنے کے بعد تیسرا میچ جیت کر اعزاز کے دفاع کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔

دوسری طرف بنگلہ دیش مسلسل 3 شکستوں کے بعد اب سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوچکا ہے۔

افغانستان اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

ٹی20 کا یہ عالمی کپ ابھی تک ایک اسکرپٹ کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں کوئی بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو نہیں ملا۔ گروپ 1 میں تو تمام ہی تجربہ کار ٹیمیں ہیں جو ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اس لیے اس گروپ میں کسی بھی ٹیم کی ہار یا جیت کو اپ سیٹ نہیں کہا جا سکتا۔

مگر گروپ 2 میں موجود افغانستان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ کوئی اپ سیٹ کردے۔ افغانستان کو ابھی نیوزی لینڈ اور بھارت سے بھی کھیلنا ہے۔ افغانستان کی اسپن باؤلنگ کے شعبے کی مضبوطی کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ اگر ان کے بیٹسمینوں نے ساتھ دیا تو وہ نیوزی لینڈ اور انڈیا کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں ہلچل مچاسکتے ہیں اور اپنے لیے سیمی فائنل کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں