سعودی عرب کا لبنانی سفیر کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2021
لبنان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے— فائل فوٹو: اے پی
لبنان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے— فائل فوٹو: اے پی

سعودی عرب نے یمن میں ریاض کی زیر قیادت جاری جنگ سے متعلق لبنانی وزیر کی متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد لبنانی سفیر کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کردی۔

الجزیزہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے لبنان سے تمام درآمدات پر بھی پابندی لگادی ہے۔

علاوہ ازیں ریاض نے بھی اپنے شہریوں کے لبنان کے سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔

مزیدپڑھیں: لبنانی وزیر اعظم کا سعودی عرب میں مستعفی ہونے کا اعلان

سعودی عرب کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ حکومت، لبنانی حکام کی جانب سے حقائق کو نظر انداز کرنے اور اصلاحی اقدامات کرنے میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے لبنانی حکومت کے ساتھ تعلقات کے نتائج پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔

بعدازاں بحرین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ چند گھنٹے بعد مملکت بحرین نے اسی وجہ سے لبنانی سفیر کو 2 دن کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔

لبنان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے لیکن منگل کو لبنان کے وزیر اطلاعات جارج کورداہی کی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں جاری جنگ کے بارے میں تنقیدی بیان دینے کی فوٹیج آن لائن گردش کرنے کے بعد ان میں مزید تناؤ آ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا انٹرویو ان کے وزیر بنائے جانے سے ایک ماہ قبل ریکارڈ کیا گیا تھا۔

وزیر اطلاعات جارج کورداہی نے کہا تھا کہ ایران سے منسلک حوثی ’بیرونی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کر رہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: خلیجی ممالک کیخلاف بیان کے بعد لبنانی وزیر خارجہ کی عہدے سے سبکدوشی کی درخواست

سابق مشہور ٹی وی اینکر نے یہ بھی کہا کہ طویل عرصے سے جاری جنگ ’فضول‘ تھی اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج ناراض ہوئیں۔

جارج کورداہی نے کہا کہ ان کے تبصرے ذاتی رائے پرمبنی تھے اور حکومت میں شامل ہونے سے پہلے کیے گئے تھے اور وہ کسی بھی ادارے کی جانب سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔

جمعہ کی شام ایک بیان میں لبنان کے وزیر اعظم نجیب میکاتی نے کہا کہ انہیں سعودی اقدام پر ’افسوس‘ ہے۔

نجیب میکاتی نے کہا ہم برادر عرب رہنماؤں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ عرب ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس بحران پر قابو پانے کے لیے کام کریں اور مدد کریں۔

رواں ہفتے کے شروع میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین نے تبصروں کے جواب میں لبنان میں اپنے سفیروں کو طلب کیا جبکہ 6 ملکی خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) جس میں قطر اور عمان بھی شامل ہیں، نے لبنانی وزیر اعظم کے ریمارکس کی مذمت کی۔

مزیدپڑھیں: مصطفیٰ ادیب لبنان کے نئے وزیراعظم، فوری اصلاحات، آئی ایم ایف معاہدے پر زور

لبنانی حکام بشمول نجیب میکاتی اور صدر میشل عون نے جارج کورداہی کے تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ لبنانی حکومت کے مؤقف کی عکاسی نہیں کرتے۔

نجیب میکاتی نے رواں ہفتے کے شروع میں ایک پریس بیان میں کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ ہم تنازعات سے الگ ہوتے ہیں لیکن ہم خود کو کسی بھی ایسی پوزیشن سے الگ نہیں کرتے جو سعودی عرب یا خلیجی ممالک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہو۔

سعودی عرب نے ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ پر اثرانداز ہونے کا الزام لگایا جو ان کے بقول جارج کورداہی کے ریمارکس پر لبنان کا ناکافی ردعمل تھا۔

حزب اللہ جسے سعودی عرب ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے، یمن میں حوثیوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور اس نے کورداہی کے تبصرے کی تعریف کی۔

سعودی بیان میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ نے لبنان کو ان ممالک کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے ایک میدان اور لانچنگ پیڈ بنا دیا ہے جو لبنان اور اس کے برادر لوگوں کے لیے خیر خواہ نہیں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں