الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب میں غیر منصفانہ رویے کا الزام مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2021
پی ٹی آئی نے ووٹروں کی فہرست میں سنگین بے ضابطگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے نئے انتخابی شیڈول کا مطالبہ کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی
پی ٹی آئی نے ووٹروں کی فہرست میں سنگین بے ضابطگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے نئے انتخابی شیڈول کا مطالبہ کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 5 دسمبر کو ہونے والے این اے 133 کے ضمنی انتخاب کے لیے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد امیدوار کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے ووٹروں کی فہرست میں 'سنگین' بے ضابطگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے نئے انتخابی شیڈول کا مطالبہ کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ضمنی انتخاب کے لیے ریٹرننگ افسر (آر او) نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز جمشید اقبال چیمہ اور ان کی اہلیہ مسرت چیمہ (کوورنگ امیدوار) کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے کیونکہ این اے 130 میں دونوں امیدواروں کے تجویز کنندگان کے ووٹ این اے 130 میں رجسٹرڈ تھے جبکہ وہ این اے 133 میں رہتے ہیں۔

ان کے امیدواروں کو مسترد کیے جانے کے بعد ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں امیدواروں نے الزام لگایا کہ ای سی پی نے ان کے تجویز کنندگان کے ووٹوں کو اپنے طور پر بدنیتی سے دوسرے حلقے میں منتقل کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب کا الیکشن کمیشن سے این اے 133 کا ضمنی انتخاب ملتوی کرنے کا مطالبہ

اس الزام کا جواب دیتے ہوئے ضلعی الیکشن کمشنر نے کہا کہ تجویز کنندگان بلال حسین اور غلام مرتضیٰ کے ووٹ کوٹ لکھپت کے علاقے لیاقت آباد محلے میں رجسٹر کیے گئے تھے جو 2018 سے این اے 130 کا حصہ ہے۔

عہدیدار نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں نے ووٹ کو این اے 133 میں اس وقت بدلنے کی خواہش ظاہر نہیں کی جب ستمبر 2020 میں ووٹرز لسٹ کی نظرثانی کی جارہی تھی۔

انہوں نے میڈیا کے ساتھ 2018 کی ووٹر لسٹ کا متعلقہ حصہ شیئر کیا جس میں دونوں تجویز کنندگان کے بلاک کوڈ کو این اے -130 کا حصہ دکھایا گیا تھا اور 22 ستمبر 2020 کو تیار کی گئی نظرثانی شدہ فہرست میں اسے تبدیل نہیں دیکھا گیا۔

ضلعی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ای سی پی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔

ادھر پنجاب کے الیکشن کمشنر غلام اسرار خان نے الیکشن کمیشن کو آئینی ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضمنی انتخاب کی شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ این اے 133 کی یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے پرویز ملک کے انتقال پر خالی ہوئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) نے ان کی بیوہ شائستہ ملک کو میدان میں اتارا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے چوہدری اسلم گل اور دیگر 17 امیدوار بھی اس نشست کی دوڑ میں شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار اور ان کے کوورنگ امیدوار دونوں کی نااہلی نے عملی طور پر مسلم لیگ (ن) کے مدمقابل کو واک اوور دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: ضمنی انتخاب کیلئے پی ٹی آئی کے امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد

2018 کے عام انتخابات میں اس نشست کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کو 12 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی تھی جب کہ پی پی پی کے امیدوار صرف 5500 ووٹ لے سکے تھے۔

جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ کے وکیل ایڈووکیٹ مبین قاضی نے دلیل دی کہ انتخابی اتھارٹی کی جانب سے ’غلطی‘ یا ’غفلت‘ کی وجہ سے امیدوار کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اصرار کیا کہ بلال اور مرتضیٰ دونوں کے خاندان کے تمام افراد کے ووٹ حلقہ این اے 133 میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ بغیر کسی وجہ کے دونوں کے ووٹ این اے 130 کی فہرست میں شامل کیے گئے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ووٹرز لسٹ میں اور بھی بہت سی غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ای سی پی کو گھر گھر مہم کے ذریعے اس کی دوبارہ تصدیق اور نظر ثانی کرنی چاہیے اور ساتھ ہی نیا الیکشن شیڈول بھی دینا چاہیے تاکہ کوئی ووٹر حق رائے دہی سے محروم نہ ہو۔

مبین قاضی نے کہا کہ اگر الیکشن ٹربیونل نے ان کے مؤکلوں کو ریلیف نہ دیا تو جن لوگوں کے نام دیگر حلقوں کی ووٹر لسٹوں میں شامل ہیں انہیں آئینی حق دلانے کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں