ججز، بیوروکریٹس پلاٹس الاٹمنٹ کیس: سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا

01 نومبر 2021
تین رکنی بنچ  نے کیس چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے—فائل فوٹو: اےایف پی
تین رکنی بنچ نے کیس چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے—فائل فوٹو: اےایف پی

سپریم کورٹ میں ججز اور بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کیس سے متعلق نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب جسٹس سجاد علی شاہ نے مقدمہ سننے سے معذرت کر لی اور یوں 3 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی جانب فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کی درخواستوں پر سماعت متوقع تھی تاہم جسٹس سجاد علی شاہ نے مقدمے کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔

اس حوالے سے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہاؤسنگ اتھارٹی کی ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں درخواست

دورانِ سماعت محمد اکرم شیخ ایف جی ای ایچ اے نے نمائندگی کی اور محمد منیر پراچہ ڈائریکٹر جنرل کے وکیل ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ایف جی ای ایچ اے کے قانون میں ملازمین کے ساتھ مخصوص افراد کا ذکر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل ہاؤسنگ سوسائٹی سے استفسار کیا کہ یہ مخصوص افراد کون ہیں؟

وکیل ہاؤسنگ اتھارٹی نے بتایا کہ مخصوص افراد کا تعین سپریم کورٹ 2009 کے فیصلے میں کر چکی ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ چیف جسٹس وہ بینچ تشکیل دیں جس میں جسٹس سجاد علی شاہ کی شمولیت نہ ہو اور کیس آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے۔

یاد رہے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے ’بے گھر افراد کو رہائش فراہم کرنے کے قانونی کاموں کو انجام دینے اور حاصل شدہ اراضی کی ترقی میں رکاوٹوں‘ کے خلاف عدالتی تحفظ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کردی

درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 20 اگست کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کے حاضر اور سابق ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹس معطل کردی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف معاملہ مزید سماعت کے لیے لارجر بینچ کے سامنے پیش کیا بلکہ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اسلام آباد کے ایف-14 اور ایف-15 سیکٹرز میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی قرعہ اندازی میں ورچوئلی ضلعی عدالتوں کا ہر جوڈیشل افسر مستفید ہونے والا تھا۔

تاہم ہائی کورٹ نے اسے مفادات کے تصادم کے طور پر دیکھا کیونکہ پلاٹ مارکیٹ کی قیمتوں سے کافی کم قیمت پر دیے گئے تھے۔

مزید برآں فہرست میں کچھ ایسے عدالتی افسران کے نام بھی شامل تھے جنہیں بداخلاقی یا بدعنوانی کی وجہ سے برطرف کردیا گیا تھا۔

ایف جی ای ایچ اے اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں میں استدلال کیا گیا کہ ہائی کورٹ، آئین کی دفعہ 199 کے تحت ازخود دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی اور وہ اس دفعہ کو صرف اس صورت میں استعمال کر سکتی ہے جب کوئی متاثرہ فریق اپیل دائر کرے۔

مزید پڑھیں: کسی جج نے پلاٹ الاٹمنٹ کیلئے درخواست نہیں دی، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ

اپیلوں میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست گزاروں نے اراضی کے حصول کو چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ایف جی ای ایچ اے کے لیے اراضی حاصل کی جاسکتی ہے اور کون اتھارٹی کے لیے حاصل کی گئی زمین سے نکالے گئے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا اہل ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 20 اگست کے فیصلے سے وہ سوالات اٹھائے جنہیں درخواست گزار نے نہیں اٹھایا تھا اور نہ ہی اس معاملے پر کوئی رائے مانگی گئی تھی۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ ازخود اختیار کے مترادف ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس نہیں ہے۔

درخواست گزاروں نے دلیل دی کہ عدالت، دفعہ 199 کے تحت دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ فریق یا کسی شخص کی شکایت سے تجاوز نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: کسی جج نے پلاٹ الاٹمنٹ کیلئے درخواست نہیں دی، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ

درخواست میں مزید کہا گیا کہ چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تمام متنازع مسائل کو سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ نے حل کر دیا تھا، اس لیے عدالت کا 20 اگست کا حکم پائیدار نہیں تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہائی کورٹ کے حکم سے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ایف جی ای ایچ اے کی اسکیموں اور الاٹیز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ساتھ ہی استدعا کی گئی کہ یہ ضروری ہے کہ عوامی اہمیت کے حامل اس معاملے کا فیصلہ عدالتی فیصلے کی آئینی اسکیم کے مطابق اور اس میں شامل فریقین کے اثر و رسوخ کے بغیر ہو تاکہ ایف جی ای ایچ اے اپنا کام بلاتعطل اور بلارکاوٹ جاری رکھے۔

تبصرے (0) بند ہیں