نیب نے وزارت خزانہ کے دعووں کے بعد وصولیوں کی تفصیلات جاری کردیں

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2021
رقم کے آڈٹ کے لیے سینیٹ نے پاکستان کے آڈیٹر جنرل سے مدد لینے کا فیصلہ کیا — فائل فوٹو: اے پی پی
رقم کے آڈٹ کے لیے سینیٹ نے پاکستان کے آڈیٹر جنرل سے مدد لینے کا فیصلہ کیا — فائل فوٹو: اے پی پی

قومی احتساب بیورو (نیب) نے 1999 میں بیورو کے قیام کے بعد سے وائٹ کالر کیسز سے وصول ہونے والے 8 کھرب 21 ارب روپے کی تفصیلات جاری کر دیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے 4 نومبر کو وزارت خزانہ کے اعلان کے بعد تنازع کے پیش نظر تمام تفصیلات میڈیا سے شیئر کیں، وزارت خزانہ نے بیان میں کہا تھا کہ انہیں 821 ارب میں سے صرف 6 ارب 45 کروڑ 80 لاکھ روپے موصول ہوئے ہیں۔

نیب کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ 8 کھرب21 ارب روپے کی ریکوریز میں سے صرف 6 ارب 45 کروڑ 80 لاکھ روپے وفاقی حکومت کے متعلقہ محکموں کے ہیں جو وزارت خزانہ کے پاس جمع کرائے گئے ہیں جبکہ دیگر متعلقہ صوبوں، بینکوں اور افراد کو دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'وائٹ کالر جرائم': نیب کی 3 برس میں 4 کھرب 87 ارب روپے کی وصولی

نیب ہیڈکوارٹرز کے مطابق اپنے قیام سے ستمبر 2021 تک انسداد کرپشن کے ادارے نے 8 کھرب21 ارب57 کروڑ 30 لاکھ روپے کی بلاواسطہ اور بالواسطہ وصولیاں کی۔

بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ 5 کھرب 65 کروڑ روپے براہِ راست متعلقہ کوارٹرز کے حوالے کیے گئے ہیں جن میں مالکان، دعویدار اور دیگر ادارے شامل ہیں۔

کچھ ریکوریز میں طے شدہ قرضے، پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکویڈیٹی (پنجاب کوآپریٹو بورڈ لمیٹڈ) سمیت دیگر اداروں کے فنڈ شامل ہیں، جس کی رقم ایک کھرب 98 ارب 57 کروڑ روپے ہے، یہ رقم بھی متعلقہ اداروں کو ادا کردی گئی ہے۔

اس ہی طرح جرمانے کی مد 45 ارب 91 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول کے گئے ہیں، مذکورہ جرمانے مختلف احتساب عدالتوں کی جانب سے عائد کیے گئے تھے جو متعلقہ قانونی دفعات کےتحت وصول کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ملزمان تفتیش کے دوران پلی بارگین اور رضاکارانہ رقم واپس کرنے کے اختیار کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اس طرح نقد کی صورت میں رقم وصول ہوا کرتی تھی، تاہم پیٹیشن نمبر 2016/17 کے تحت سپریم کورٹ نے رضاکارانہ اختیارات استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: 1300 بدعنوانی کے مقدمات: نیب کا 1 کھرب روپے کی وصولی کا فیصلہ

اس سے قبل پلے بارگین اور رضاکارانہ طور پر رقم کی ادائیگی سے 54 ارب 90 کروڑ 20 لاکھ روپے وصول کیے گئے ہیں، جبکہ دیگر ریکوریز کی نوعیت مختلف ہے۔

علاوہ ازیں قانون کے مطابق متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں کو بھی 46 ارب 22 کروڑ روپے ادا کیے جاچکے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس اور بعد ازاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں وزارت خزانہ نے دعویداروں اور حقیقی فنڈ کے درمیان بڑے خلا پر حیرت کا اظہار کیا۔

اس کے بعد سینیٹ کے اراکین نے خصوصی آڈٹ کے لیے پاکستان کے آڈیٹر جنرل سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سینیٹ کمیٹی کو بھیجی گئیں دستاویزات میں نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 76 ارب روپے پلے بارگین یا رضاکارانہ ادائیگیوں کی مد میں حاصل کیے ہیں ، 122 ارب روپے طے شدہ بینک کے قرضوں، 60 ارب روپے قرضوں کی تنظیم نو جبکہ 46 ارب روپے مختلف جرمانوں کی مد میں وصول کیے گئے اور مختلف وصولوں تحت حاصل ہونے والی ’بالواسطہ ‘رقم 5 کھرب روپے سے زائد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی رضاکارانہ واپسی اسکیم کے تحت 20 ارب روپے کی وصولی

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ تنویر بٹ نے پینل کو آگاہ کیا تھا کہ 16 سال میں نیب کے ذریعے کی جانے والی وصولیوں میں غیر ٹیکس آمدنی کی مد میں صرف 6 ارب 45 کروڑ 80 روپے وصول ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ رقم حکومتی کھاتوں میں جمع نہیں کرائی گئی ہے، یہ معلوم نہیں کہ نیب نے821 ارب روپے کس اکاؤنٹ میں جمع کرائے ہیں‘۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے قومی ادارہ برائے انسداد جرائم سے وصول کیے گئے فنڈز بھی قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے تھے اور شاید انہیں اب بھی روکا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں