کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں وزیرِاعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کرنی تھی۔ تقریب میں شوکت ترین کا بے چینی سے انتظار کیا جارہا تھا مگر اچانک اعلان ہوا کہ پرواز میں تاخیر کے باعث مشیرِ خزانہ صاحب ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے پہنچیں گے۔

اب ہماری حالت ایسی تھی کہ پوچھیے مت، آپس میں باتیں کرکے جیسے تیسے وقت گزاری کرنے لگے۔ تھوڑی دیر میں وزارتِ خزانہ کے نئے ترجمان مزمل اسلم آن پہنچے اور صحافیوں کی میز پر ہم سے محوِ گفتگو ہوئے۔ نئے نویلے ترجمان صاحب اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات پر روشنی ڈال رہے تھے کہ اچانک ایک صحافی نے ان سے چینی کی بڑھتی قیمتوں سے متعلق سوال داغ دیا اور پھر گفتگو کا رخ چینی کی طرف مڑگیا۔

ہمارے ساتھی شہریار جنجوعہ نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا کہ کیا چینی کا استعمال لازمی ہے؟ ذرا لوگوں کی صحت پر چینی زیادہ کھانے کے اثرات تو دیکھیے! ذیابیطس کا مرض کس قدر پھیل گیا ہے۔ کیوں نہ چینی کو کھانے پینے کی لازمی اشیا سے ہی نکال دیا جائے؟

شہریار کی یہ بات سنتے ہی میرے دماغ میں بتی جل گئی۔ دراصل اسی دن سہ پہر میں ذیابیطس (شوگر) کے مرض سے متعلق کراچی پریس کلب میں منعقدہ آگاہی سمینار میں مرض سے جڑے مسائل پر کُھل کر بات ہوئی تھی۔ چنانچہ میں نے پاکستان میں چینی کی صنعت اور ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے مرض کے موضوع پر مفصل تحریر قلمبند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

مزید پڑھیے: ذیابیطس کی خاموش علامات اور بچاؤ کی تدابیر

پاکستان میں ان دنوں مہنگائی کی وجہ سے تقریباً ہر شخص پریشان ہے۔ عوام مہنگائی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں جبکہ اپوزیشن نے اسی دہائی میں تان ملاتے ہوئے مہنگائی کے خلاف احتجاجی مہم شروع کردی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی اس احتجاج سے خوف کھا کر تاریخی ریلیف پیکج کا اعلان کردیا ہے۔

بہرحال چینی کی قیمت نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ 3 سال قبل جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا اس وقت فی کلو گرام چینی کی قیمت 60 روپے تھی جو چند روز پہلے 150 تک پہنچ گئی۔

واضح رہے کہ ملک میں مجموعی طور پر سالانہ 60 لاکھ ٹن چینی استعمال ہوتی ہے جسے 91 شوگر ملوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں چینی کی فی کس کھپت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ 1999ء میں پاکستان میں سالانہ فی کس چینی کی کھپت 23 کلو گرام تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 26.52 کلو گرام ہوگئی ہے۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت کا 80 فیصد حصہ گنے کی خریداری پر خرچ ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں اکتوبر کے وسط میں گنے کی کرشنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو 110 دن تک جاری رہتا ہے۔

بشکریہ: psmacentre
بشکریہ: psmacentre

چینی کی پیداوار کا انحصار ظاہر ہے کہ گنے کی پیداوار پر ہے۔ اس حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ گنے کی پیداوار پاکستان کے 3 صوبوں پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہوتی ہے۔ مالی سال 2021ء میں 11 لاکھ 74 ہزار ہیکٹر پر گنے کی کاشت ہوئی جس سے 7 کروڑ 56 لاکھ ٹن گنے کی پیداوار ہوئی۔

شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق چینی کی قیمت میں اضافے کی وجوہات میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، سیلز ٹیکس کو 8 سے بڑھا کر 17 فیصد کرنا، اور ایکسل لوڈ پر عملدرآمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی منڈی میں چینی کے مہنگے داموں کو بھی پاکستان میں مہنگی چینی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

مالی سال 2018ء میں چینی کی اوسط قیمت 53 روپے 57 پیسے تھی جو مالی سال 2019ء میں بڑھ کر 64 روپے 27 پیسے ہوگئی تھی، اسی طرح مالی سال 2020ء میں چینی کی اوسط قیمت 79 روپے 70 پیسے فی کلو گرام تھی مگر ستمبر میں چینی کی فی کلو گرام قیمت 94 روپے 79 پیسے تک بڑھ گئی۔ تاہم موجودہ مالی سال کے دوران چینی کی فی کلو گرام قیمت 150 روپے تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی منڈی میں چینی کی قیمت کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ 2019ء میں چینی کی اوسط قیمت 334.53 ڈالر فی ٹن تھی جبکہ 2020ء میں 362.34 ڈالر فی ٹن رہی ہے۔

2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر چینی پیدا کرنے والے 10 بڑے ممالک میں بھارت، برازیل، یورپی یونین، تھائی لینڈ، چین، امریکا، روس، میکسیکو، پاکستان اور آسٹریلیا شامل ہیں جبکہ چینی کے استعمال کرنے والے ملکوں میں بھارت، یورپی یونین، چین، برازیل، امریکا، انڈونیشیا، روس، پاکستان، میکسیکو اور مصر سرِفہرست ہیں۔

پاکستان میں چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے 2015ء سے 2020ء تک مختلف رعایتی اسکیمیں متعارف کروائی گئیں جن کے تحت قومی خزانے سے ان کمپنیوں کو 29 ارب 22 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی دی گئی۔

پاکستان چینی پیدا کرنے والے 10 بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے— شٹر اسٹاک فوٹو
پاکستان چینی پیدا کرنے والے 10 بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے— شٹر اسٹاک فوٹو

پاکستان میں چینی کی قیمت ہر دور میں مسئلے کا باعث رہی ہے۔ 2005ء میں بھی چینی کا بحران پیدا ہوا تھا اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر نے قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے ملوں کے قرضوں کو وقت سے پہلے طلب کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ جس کی وجہ سے شوگر ملوں کو اپنے حصص اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کرنا پڑے اور مارکیٹ میں چینی کی فراوانی ہونے سے قیمت میں نمایاں کمی ہوئی۔ لیکن موجودہ حکومت میں کبھی شوگر کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تو کبھی شوگر کمیشن قائم ہوتا ہے یا پھر کمپیٹیشن کمیشن کو استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔ مگر چینی کی قیمت میں خاطر خواہ گراوٹ کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی نظر آتی۔

خیر حکومت سے مہنگی چینی کا شکوہ اپنی جگہ مگر یہاں یہ سوالات بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ کیا چینی خوراک کا لازمی جزو ہے؟ کیا اس کے بغیر غذائیت کا حصول ممکن نہیں؟ کیا خوراک کا لازمی حصہ سمجھی جانے والی چینی اب زہر ثابت نہیں ہورہی ہے؟

پرانے وقتوں میں چینی ایک مصالحے کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور مہنگی ہونے کی وجہ سے یہ صرف اشرافیہ کے دسترخوانوں تک محدود تھی۔ میٹھی غذا کو محفوظ تصور کیا جاتا کیونکہ میٹھے میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ زیادہ تر عام لوگ گنے کو چوس کر اس کا رس پی لیتے تھے۔ اس کے علاوہ شہد اور دیگر پھلوں کے رس کے ذریعے بھی مٹھاس حاصل کی جاتی تھی۔

برِصغیر میں برسوں سے لوگ گنے کا شربت پیتے چلے آرہے ہیں۔ 18ویں صدی میں صنعتوں کے پھیلاؤ کے بعد چینی کی بڑے پیمانے پر پیداوار کا عمل شروع ہوا اور چینی کا استعمال امرا کے بعد عام لوگوں میں بھی عام ہوگیا۔ وقت گزرا اور پھر پتا چلا کہ میٹھی چیز بھی زہر ہوسکتی ہے۔

گنے کے شربت میں مٹھاس ہونے کے باوجود یہ سفید چینی کی طرح خطرناک نہیں ہے۔ اگر اسی شربت کو گرم کرکے اس میں موجود پانی کو خشک کرکے گڑ یا شکر بنالی جائے تو وہ بھی صحت کے لیے اس قدر نقصاندہ نہیں ہوتی جتنی سفید دانے دار چینی ہوتی ہے۔ دراصل چینی کو سفید اور دانے دار بنانے کے لیے اس میں سلفر ڈائی آکسائیڈ، فاسفورک ایسڈ، کاسٹک سوڈا اور دیگر کیمیائی اجزا کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان تمام کیمیکلز کے اثرات چینی میں باقی رہ جاتے ہیں۔

گڑ تیار کیا جارہا ہے—اے پی
گڑ تیار کیا جارہا ہے—اے پی

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یومیہ 15 ہزار ٹن چینی کا استعمال ہوتا ہے جس میں 6 ہزار ٹن چینی بازاروں میں فروخت ہوتی ہے جبکہ 9 ہزار ٹن چینی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے۔

بازار میں دستیاب کھانے پینے کی تقریباً ہر شے میں ذائقہ بڑھانے کے لیے چینی کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ڈائٹ بسکٹ اور مشروب میں بھی چینی کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔

چینی کے بڑھتے استعمال اور بدلتی طرزِ زندگی کی وجہ سے شوگر یا ذیابیطس کی بیماری پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماضی میں یہ تصور عام تھا کہ ذیابیطس عمر رسیدہ افراد کی بیماری ہے۔ مگر تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں شوگر اب عمر رسیدہ افراد کی بیماری نہیں رہی ہے۔

دورِ حاضر کی طرزِ زندگی نے ذیابیطس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بچوں کے کھانے پینے کی جتنی اشیا دستیاب ہیں ان میں بڑی مقدار میں چینی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کراچی پریس کلب میں ذیابیطس سے متعلق سمینار میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے پبلکیشن سیکریٹری ڈاکٹر مسرت ریاض کے مطابق ’اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بچے ذیابیطس کا شکار ہیں۔ ملک کی دو تہائی آبادی اس وقت موٹاپے کی وجہ سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے شکار 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد اس بیماری کے علاج و معالجے کی سہولیات سے محروم ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں میں ایک کروڑ 50 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان ذیابیطس سے دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ متاثر ملک بن گیا ہے‘۔

اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بچے ذیابیطس کا شکار ہیں— شٹر اسٹاک فوٹو
اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بچے ذیابیطس کا شکار ہیں— شٹر اسٹاک فوٹو

ڈاکٹروں کے مطابق ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جو اندر ہی اندر انسان کو کھانے لگتی ہے۔ ذیابیطس کو خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔

ذیابیطس کی وجہ سے لوگ معذور بھی ہورہے ہیں۔ ذیابیطس ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکریٹری عبدالباسط کے مطابق 'سالانہ 2 لاکھ ذیابیطس کے مریض اپنے پیروں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں 20 لاکھ افراد کو پیروں کے السر کا سامنا ہے۔ ذیابیطس نہ صرف خود ایک بیماری ہے بلکہ یہ دیگر جسمانی مسائل کا سبب بھی بنتی ہے'۔

مزید پڑھیے: وہ غذا جو ذیابیطس ٹائپ 2 کو شکست دینے میں مدد فراہم کرے

عبدالباسط کا کہنا ہے کہ 'ذیابیطس سے متاثر 70 فیصد افراد بیماری لاحق ہونے کے بعد 5 سال میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو کچھ ہی عرصے میں یہ بیماری ملک کی نصف آبادی کو اپنا شکار بنالے گی۔

مذکورہ بالا باتوں سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں صرف چینی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اس کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماری ذیابیطس بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل اقدامات ہمیں چینی سے متعلق مسائل نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں:

  • چینی کو بنیادی خوراک کی فہرست سے خارج کیا جائے۔
  • گنے کی کاشت اور شوگر ملز کے لیے خصوصی مراعات ختم کی جائیں۔
  • گنے کی کاشت کے حوالے سے قوانین کو نرم کرتے ہوئے فیکٹری کے لیے مختص گنے کی کاشت کے رقبے کا قانون ختم کیا جائے۔
  • کسانوں پر کسی مخصوص فیکٹری کو گنے کی لازمی فروخت کی شرط ختم کی جائے۔
  • کسانوں کو گنے کے بجائے دیگر نقد آور فصلوں کی کاشت کے لیے مراعات دی جائیں۔
  • ملک میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی عائد کی جائے۔
  • ملک میں گڑ اور شکر بنانے کے حوالے سے موجود قانون کی سختی کو ختم کیا جائے۔
  • سرکاری تقریبات میں میٹھے کے استعمال پر پابندی عائد کردی جائے۔
  • حکومت ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے مرض کے حوالے سے میڈیا پر مہم چلائے اور عوام کو چینی کے کم سے کم استعمال کی ترغیب دے۔
  • اسکول کینٹین میں میٹھی اشیا رکھنے پر پابندی عائد کی جائے۔
  • جس طرح سگریٹس کے پیکٹ پر خطرات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اسی طرح میٹھی اشیا کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی نشاندہی کی جائے۔
  • کھانے پینے کی تیار اشیا پر چینی کے دیگر نام یا فارمولے لکھنے کے بجائے چینی کی مجموعی مقدار درج کی جائے۔

اگر ملک میں چینی سے جڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو چینی مافیا کو فائدہ ہوتا رہے گا اور ہم سب اس زہر کو خوشی خوشی کھا کر موت یا پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب چینی کے استعمال کو کم کرکے صحت بخش غذاؤں کا استعمال زیادہ رکھیں، یوں ہم اپنے قیمتی سرمائے کو بیماری پر خرچ کرنے سے بچا سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ زندگی میں اگر چینی نہیں رہے گی تو مافیا بھی نہیں رہے گا اور ذیابیطس کے مضر اثرات سے بھی بچا جاسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں