افغانستان: ننگرہار کی مسجد میں دھماکا، 3 افراد جاں بحق

12 نومبر 2021
داعش پہلی مرتبہ 2015 میں ننگرہار میں سامنے آئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
داعش پہلی مرتبہ 2015 میں ننگرہار میں سامنے آئی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے صوبے ننگرہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ میں دھماکے سے 3 افراد جاں بحق اور 15 افراد زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دھماکا مشرقی صوبے کے اسپن غر ضلع میں ہوا جو اگست میں ملک میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے داعش کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔

مزیدپڑھیں: داعش نے قندھار کی مسجد میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی

دوسری جانب طالبان کے ایک ذمہ داری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میں ضلع اسپن گھر کی ایک مسجد کے اندر نماز جمعہ کے دوران دھماکے کی تصدیق کرتا ہوں جس میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں‘۔

مقامی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ’اب تک 3 افراد جاں بحق جبکہ 15 زخمی ہو چکے ہیں‘۔

خیال رہےکہ داعش پہلی مرتبہ 2015 میں ننگرہار میں سامنے آئی تھی، طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے افغانستان میں ہونے والے خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں مسجد کے باہر دھماکا، دو افراد جاں بحق

گزشتہ ماہ کے وسط یعنی 16 اکتوبر کو دہشت گرد تنظیم داعش نے افغانستان کے مغربی شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران ہوئے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جہاں 41 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

قبل ازیں اکتوبر میں ہی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس دھماکے میں بھی اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

مزیدپڑھیں: داعش کے تمام اراکین افغان ہیں، تنظیم میں کوئی غیر ملکی نہیں، ذبیح اللہ مجاہد

خیال رہے کہ داعش نے مزید پر تشدد کارروائیوں کی دھمکی دی ہے لیکن اس مرتبہ طالبان بطور ریاست کردار ادا کررہے ہیں کیونکہ امریکی فوجی اور ان کی اتحادی افغان حکومت رخصت ہوچکی ہیں۔

طالبان نے امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عسکریت پسند گروپ پر نگرانی رکھیں گے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ 15 اگست کو طالبان کے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے داعش کے حملوں میں اچانک اضافے کے ساتھ وہ اپنے عہد پر برقرار رہ سکیں گے یا نہیں۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ’انتہا پسندی سے متعلق پروگرام‘ کے ریسرچ فیلو اینڈریو مائنز نے کہا کہ داعش نے زیادہ تر حملوں میں ریاست کو نشانہ بنایا ہے جبکہ اب امریکا اور بین الاقوامی فورسز جا چکی ہیں، داعش اب ریاست کے خلاف فعال ہے اور وہ ریاست طالبان ہے۔

اس حوالے سے افغانستان کے قائم مقام ڈپٹی وزیر اطلاعات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ دہشت گرد تنظیم داعش ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس کی افغانستان میں نمایاں حیثیت نہیں ہے اور داعش کے تمام اراکین افغان ہیں، ان میں کوئی غیر ملکی نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں