یمن: فوج حدیدہ سے دستبردار، حوثی باغیوں نے کنٹرول سنبھال لیا

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2021
عالمی سطح پر حمایت یافتہ حکومت کی افواج اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ساحلی شہر حدیدہ سے دستبردار ہو گئی ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
عالمی سطح پر حمایت یافتہ حکومت کی افواج اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ساحلی شہر حدیدہ سے دستبردار ہو گئی ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

یمن کی عالمی سطح پر تسلیم یافتہ حکومت کی افواج اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ساحلی شہر حدیدہ سے دستبردار ہو گئی ہیں جس کے بعد حوثی باغیوں نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے فنڈ سے چلنے والی حکومتی فورسز نے کہا کہ انہوں نے حدیدہ سے دور اپنے دستے دوبارہ تعینات کردیے ہیں کیونکہ 2018 کے بعد سے یہاں سیز فائر کا معاہدہ ہے۔

مزید پڑھیں: یمن: حوثی باغیوں کے زیر اثر شہر صنعا پر سعودی فوجی اتحاد کے فضائی حملے

انہوں نے کہا کہ اتحادی افواج نے دفاعی حربوں کے تحت لڑائی کی غلطی تسلیم کر لی ہے، وہ بین الاقوامی معاہدے کے تحت لڑنے سے قاصر ہیں کیونکہ متعدد محازوں پر مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔

سیز فائر کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ افواج کی دستبرداری سے قبل انہیں مطلع نہیں کیا گیا اور حکومتی فورسز حدیدہ میں اپنے مقام سے پیچھے ہٹ گئیں جو یمن میں درآمدات اور امدادی سامان کا مرکزی داخلی راستہ ہے اور حکومتی افواج کے اس اقدام سے باغیوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی تحریک ملی۔

سیکیورٹی عہدیداروں کے مطابق ہفتے کو حوثی باغیوں نے حکومت کی حمایت کرنے کے الزام میں درجنوں افراد کو طلب کر لیا تاہم تاحال ان کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا۔

دوسری جانب حکومت کی حمایت دیگر افواج کے چند دستے اب بھی حدیدہ میں موجود ہیں اور انہوں نے شہر کے جنوب میں حوثی باغیوں کے حملے کو ناکام بنا دیا اور اس کارروائی میں ایک فیلڈ کمانڈر سمیت تین سرکاری فوجی مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: یمن سے سعودی عرب کے سرحدی شہروں پر میزائل حملے

حدیدہ میں اس لڑائی کا آغاز 2018 میں اس وقت ہوا تھا جب حکومتی افواج نے اتحادیوں کی مدد سے حوثی سے ساحلی شہر کا کنترول چھین لیا تھا البتہ کئی ماہ کی جھڑپوں کے بعد آپس میں برسرپیکار دونوں فریقین میں اسی سال دسمبر میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں 16ہزار سے زائد قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا تھا ۔

اس معاہدے کو یمن میں دوبارہ قیام امن کے لیے اہم تصور کیا جا رہا تھا لیکن اس پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور اتحادی افواج نے حوثی باغیوں پر مستقل معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔

اس تنازع کا آغاز 2014 میں اس وقت ہوا تھا جب 2014 میں حوثیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا جس پر متحدہ عرب امارات سمیت اتحادی فوج نے حکومت کی مدد سے باغیوں کے خلاف 2015 میں جنگ کا آغاز کیا تھا تاکہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو بحال کیا جا سکے۔

تاہم یمن میں قیام امن کا خواب پورا نہ ہو سکا اور اس جنگ کے بعد یمن خطے میں تنازع کا نیا گڑھ بن گیا اور اس وقت دنیا میں بدترین انسانی بحران سے دوچار ہے جہاں لاکھوں افراد بھوک و قحط سالی اور طبی امداد نہ ملنے کے سبب موت کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: یمن کی ائیر بیس پر حوثی باغیوں کے حملے میں 30 فوجی ہلاک

حالیہ مہینوں میں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی جانب سے جنگ روکنے اور سیز فائر کے مطالبے کے باوجود حوثی باغیوں نے شبوا، مارب اور بیدا سمیت مختلف علاقوں میں حکومتی فورسز پر حملے کیے ہیں۔

ہفتے کو حکومتی فورسز نے انتہائی اہمیت کے حامل جنوبی شہر مارب میں باغیوں کو شدید لڑائی کے بعد پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔

امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اتحادی فوجی کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو ہٹائے تاکہ وہاں امدادی سامان اور طبی امداد بھیجی جا سکے کیونکہ ان امداد کے نہ پہنچنے کی وجہ سے یمن میں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں