آسٹریلیا نے ریکارڈ 5 مرتبہ ون ڈے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے، لیکن حیران کن طور پر ٹی20 میں وہ پہلی بار عالمی چیمپئن بنا ہے۔ یوں آسٹریلیا جو واحد تمغہ اب تک نہیں جیت سکا تھا، بالآخر 2021ء میں اس کے سینے پر سج چکا ہے۔

یہ ایک ایسا سال تھا جب آسٹریلیا سے بہت کم توقعات تھیں، خاص طور پر انگلینڈ کے ہاتھوں گروپ میچ میں بُری طرح شکست کے بعد تو آسٹریلیا کے لیے امکانات کم ہی نظر آرہے تھے۔

تاہم اس مقابلے کے بعد جس طرح آسٹریلیا نے ایونٹ میں واپسی کی اور سخت سے سخت حریف کو شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کی ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ آخر آسٹریلیا کو دنیائے کرکٹ کی سپر پاور کیوں کہا جاتا ہے۔

ایک اور یکطرفہ آسٹریلیا-نیوزی لینڈ فائنل

کسی ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا پہلی بار سامنا 2015ء میں ہوا تھا جب میلبرن کے تاریخی میدان پر آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو بُری طرح شکست دے کر ریکارڈ 5ویں مرتبہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس لیے ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء کے فائنل سے پہلے اس شکست کے بدلے کی باتیں ضرور ہورہی تھیں۔

نیوزی لینڈ سیمی فائنل میں انگلینڈ کو ہرا کر آیا تھا، جس کے ہاتھوں اسے ورلڈ کپ 2019ء کے فائنل میں شکست ہوئی تھی، اس لیے توقع تھی کہ وہ آسٹریلیا سے بھی حساب چکتا کرلیں گے۔ لیکن اس بار ان کے اور ’بدلے‘ کے درمیان ٹاس حائل ہوگیا۔

فیصلہ ٹاس پر

ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں ٹاس نے اتنا اہم، بلکہ یوں کہیے کہ بھیانک کردار ادا کیا ہے کہ سپر 12 مرحلے کے تقریباً تمام اہم مقابلوں میں جس ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ سنبھالی، کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ واحد استثنیٰ جنوبی افریقہ کو حاصل رہا جس نے اپنے آخری مقابلے میں ٹاس ہارنے کے باوجود انگلینڈ کو شکست دی تھی۔ لیکن یہ غیر معمولی کامیابی بھی ان کو سیمی فائنل تک نہیں پہنچا پائی۔

بہرحال، فائنل میں سب سے اہم میدان، یعنی ٹاس، آسٹریلیا کے کپتان ایرون فنچ کے نام رہا اور جیتنے کے بعد ان کے چہرے پر جو فاتحانہ مسکراہٹ تھی، وہ بہت کچھ بیان کر رہی تھی۔

اس ٹاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں ایک، ایک شکست ہوئی ہے اور یہ وہی مقابلے تھے جس میں وہ ٹاس ہاریں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اپنی تمام فتوحات ان مقابلوں میں حاصل کیں جہاں انہوں نے ٹاس جیتا تھا، یہاں تک کہ سیمی فائنل میں بھی دونوں نے اپنے حریفوں کو ٹاس جیت کر اور ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے ہرایا تھا۔

آسٹریلیا کے کپتان ایرون فنچ نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا— فوٹو: اے ایف پی
آسٹریلیا کے کپتان ایرون فنچ نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا— فوٹو: اے ایف پی

فائنل کے میدان دبئی کو بھی دیکھ لیں تو یہاں ورلڈ کپ کے 12 میں سے 11 مقابلے وہی ٹیم جیتی جس نے ٹاس جیت کر حریف کو بلے بازی کی دعوت دی۔

اس لیے ٹاس ہارتے ہی نیوزی لینڈ کے لیے حالات، واقعات، جذبات اور احساسات سب یکدم بدل گئے۔ یہ نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی20 ورلڈ کپ فائنل تھا جبکہ آسٹریلیا 2010ء میں ایک بار اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچ چکا ہے۔ نیوزی لینڈ 2015ء میں پہلی بار ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی پہنچا تھا تو اس کا مقابلہ اپنے ’پڑوسی‘ آسٹریلیا ہی سے ہوا تھا اور وہاں بھی شکست ہی اس کا مقدر ٹھہری تھی۔

نیوزی لینڈ، آغاز اچھا، انجام بُرا

نیوزی لینڈ کو آغاز تو اچھا ملا، بلکہ اس کے بلے بازوں کو نئی زندگی اور نئے مواقع بھی ملے۔ آسٹریلیا نے سیمی فائنل کی طرح یہاں بھی چند کیچ چھوڑے۔ مارٹن گپٹل کا کیچ وکٹوں کے پیچھے اس وقت چھوٹا جب وہ صفر پر تھے جبکہ کپتان کین ولیمسن کو 21 رنز پر یوں کہیے کہ نئی زندگی ملی، جس کے بعد انہوں نے 48 گیندوں پر 85 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔

لیکن ان کے بعد آنے والے بلے باز کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا پائے۔ جمی نیشم کا جادو بھی نہیں چل پایا اور 20 اوورز مکمل ہونے پر نیوزی لینڈ 172 رنز کا مجموعہ ہی اکٹھا کرسکا۔ آسٹریلیا نے تو پاکستان کے خلاف 177 رنز کا ہدف بھی حاصل کرلیا تھا، یہ تو پھر اس سے بھی کم اسکور تھا۔

پھر ہمیں نیوزی لینڈ کی باؤلنگ میں بھی وہ دم خم نظر نہیں آیا جو پاکستان کے پاس تھا۔ پاکستان نے تو آسٹریلیا کو سیمی فائنل سے تقریباً باہر کردیا تھا لیکن نیوزی لینڈ ایک لمحے کے لیے بھی اس پر حاوی نہیں ہوسکا۔ ڈیوڈ وارنر کے طوفانی 38 گیندوں پر 53 اور پھر مچل مارش کی یادگار 50 گیندوں پر 77 رنز کی اننگ نے اسے 19ویں اوور میں ہی ہدف تک پہنچا دیا۔

نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ کے سوا تمام باؤلرز آسٹریلیا کے بلے بازوں کے رحم و کرم پر نظر آئے۔ سیمی فائنل میں شاداب خان کے خلاف جدوجہد کرنے کے بعد نظر آیا کہ آسٹریلیا نے اسپنرز کے خلاف کافی ہوم ورک کر رکھا تھا۔ اور اس کا اظہار اش سوڈھی کے 3 اوورز میں بننے والے 40 رنز تھے۔

نیوزی لینڈ کب تک صرف دل ہی جیتے گا؟

اس طرح نیوزی لینڈ ایک مرتبہ پھر صرف دل ہی جیت پایا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران وہ آئی سی سی کے 4 ٹورنامنٹس کے فائنل تک پہنچا ہے اور ان میں سے صرف ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ ہی جیت پایا۔ ورلڈ کپ 2015ء سے لے کر ورلڈ کپ 2019ء اور اب ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء کے فائنل میں بھی شکست ہی کیویز کا نصیب بنی۔

مگر دوسری طرف فائنل مقابلوں میں آسٹریلیا کا ریکارڈ شاندار ہے۔ 1996ء کے ورلڈ کپ میں فائنل ہارنے کے بعد آسٹریلیا نے بہت کچھ سیکھا کیونکہ اس کے بعد 1999ء، 2003ء، 2007ء اور 2015ء کے ورلڈ کپ اور اب 2021ء کے ٹی20 ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کو کامیابی ملی جبکہ واحد شکست 2010ء کے ٹی20 ورلڈ کپ میں کھائی جہاں اسے انگلینڈ نے ہرایا تھا۔ یہ گزشتہ 25 سالوں میں کسی بھی فارمیٹ کے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا کی واحد شکست تھی۔

نیوزی لینڈ نے ایک مرتبہ پھر صرف دل ہی جیتا— تصویر: رائٹرز
نیوزی لینڈ نے ایک مرتبہ پھر صرف دل ہی جیتا— تصویر: رائٹرز

نیا زمانہ، نئے چیمپئنز

تاریخ میں صرف دوسری مرتبہ ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچنے کے لیے آسٹریلیا نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسے سپر 12 مرحلے میں اپنے اہم ترین مقابلے میں انگلینڈ کے ہاتھوں بُری طرح شکست ہوئی لیکن اس کے بعد ٹورنامنٹ میں جاندار انداز میں واپسی کی۔

بنگلہ دیش کو 73 رنز پر ڈھیر کیا اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف 158 رنز کا ہدف 17ویں اوور میں حاصل کیا اور سیمی فائنل میں ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد پاکستان کو شکست دی۔ پھر فائنل کے سب سے بڑے مقابلے میں آسٹریلیا نے بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یوں پہلی بار ٹی20 کا عالمی چیمپئن بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح آسٹریلیا پہلی بار ٹی20 کا ورلڈ چیمپئن بنا ہے، اسی طرح ہمیں گزشتہ چاروں آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کوئی نیا چیمپیئن ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ مثلاً 2017ء میں پاکستان نے پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی، پھر 2019ء میں انگلینڈ نے تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی اور رواں سال 2021ء میں نیوزی لینڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا پہلا چیمپئن بنا۔

ڈیوڈ وارنر، ترپ کا پتہ

اس ٹورنامنٹ میں تجربہ کار اوپنر ڈیوڈ وارنر آسٹریلیا کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوئے۔ انڈین پریمیئر لیگ میں مایوس کن کارکردگی اور بحیثیت مجموعی ناقص فارم کی وجہ سے ان سے توقعات نہیں تھیں۔ لیکن وہ بابر اعظم کے بعد ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین بنے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے اہم ترین میچوں میں اہم اننگز کھیلیں۔

وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری گروپ مقابلے میں 89 ناٹ آؤٹ رہے، سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف 49 رنز بنائے اور پھر نیوزی لینڈ کے خلاف فائنل میں 53 رنز اسکور کیے۔ اسی بنیاد پر ڈیوڈ وارنر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔

ایشیائی کرکٹ کا زوال؟

پاکستان نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا اور اس کے بعد چاہے ورلڈ کپ ون ڈے کا ہو یا ٹی20 کا، عموماً کوئی نہ کوئی ایشیائی ٹیم ہمیں فائنل میں نظر ہی آتی ہے۔

مثلاً 1996ء میں سری لنکا فاتح بنا، 1999ء میں آسٹریلیا نے فائنل میں پاکستان کو شکست دی۔ 2003ء میں آسٹریلیا کے مقابل بھارت تھا اور 2007ء میں سری لنکا۔ اسی سال ٹی20 فارمیٹ میں بھی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا جس کے فائنل میں پاک-بھارت یادگار مقابلہ دیکھنے کو ملا۔

پھر 2009ء کے ٹی20 ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی تھی۔ ورلڈ کپ 2011ء میں فائنل بھارت اور سری لنکا کے مابین کھیلا گیا۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2012ء میں ویسٹ انڈیز اور سری لنکا مقابل تھے جبکہ 2014ء میں سری لنکا نے بھارت کو شکست دی تھی۔

یہ آخری ورلڈ کپ تھا کہ جس میں کوئی ایشیائی حریف فائنل تک پہنچا۔ اس کے بعد ورلڈ کپ 2015ء، ٹی20 ورلڈ کپ 2016ء، ورلڈ کپ 2019ء اور ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء چاروں میں غیر ایشیائی ٹیمیں فائنل تک پہنچیں۔

یعنی پچھلے چاروں آئی سی سی ورلڈ کپ ٹورنامنٹس ایشیائی ٹیموں کے لیے بہت مایوس کن ثابت ہوئے۔ اس ٹی20 ورلڈ کپ میں تو صورتحال اس لیے زیادہ مایوس کن تھی کیونکہ سیمی فائنل میں پاکستان واحد ایشیائی ٹیم تھی، باقی تمام ٹیمیں پہلے مرحلے میں ہی باہر ہوگئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں