غالباً جون کے دنوں کی بات ہے۔ میں اور میری اہلیہ کلکتہ میں بڑے اپارٹمنٹ کی تلاش میں تھے اور اس تلاش میں ہم شہر کے مضافات میں ایک نامور بلڈر کی زیرِ نگرانی بننے والے رہائشی منصوبے کا جائزہ لینے پہنچے۔

نفیس پہناوے میں ملبوس مارکیٹنگ منیجر صاحب نے ہمیں منصوبے کی خصوصیات گنوانے اور سائٹ کا دورہ کروانے کے بعد اپنے پُرتعیش دفتر میں کافی پینے کی پیش کش کی اور ہمیں اطمینان دلاتے ہوئے گویا ہوئے کہ، 'ہم صرف مہذب اور پڑھے لکھے افراد کو اپنا گاہک بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو تو بالکل بھی نہیں'۔

میں نے یہ بات سن کر آدھے سیکنڈ میں ہی یہ فیصلہ کرلیا کہ میرا یہاں اب کوئی کام نہیں۔ جب میں اور میری اہلیہ نظروں کے تبادلے کے بعد منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر دفتر سے اٹھ کر جانے لگے تو میں نے یہ نوٹ کیا کہ منیجر سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنے والی ایک اور فیملی بھی صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دیوتا گنیش کی چراغوں سے سجی مورتی کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم سے پہلے ہی دفتر سے باہر نکل گئی۔

باہر جب میں گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا اس وقت وہ لوگ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ میں نے ان کی گاڑی میں ایک عمر رسیدہ باحجاب خاتون کو بھی دیکھا جو ضرور وہاں موجود آدمی یا عورت میں سے کسی ایک کی والدہ ہوں گی۔

مزید پڑھیے: یہ گرفتاری کس طرح آریان خان کی زندگی کو تبدیل کرسکتی ہے؟

یہ نہ تو آج کا اتر پردیش ہے اور نہ گودھڑا واقعے کے بعد کا گجرات تھا۔ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت بھی قائم نہیں۔ یہ تو وہ ریاست ہے جہاں حکومت کو 'اقلیت کو خوش کرنے' کا 'مجرم' ٹھہرایا جاتا ہے۔

یہ 2021ء کے اس وقت کے کلکتہ کا تذکرہ ہو رہا ہے جب ریاستی انتخابات میں تری نامول کانگریس کی شاندار کامیابی کو مشکل سے ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اس خاندان کے سامنے میرا سر شرم سے جھک گیا۔ میں ان کے سامنے خود کو شرمسار محسوس کرنے لگا تھا لیکن حسبِ معمول میں نے آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد کھڑکیوں کے شیشے چڑھائے اور آگے بڑھ گیا۔

میں نے اس روز شام کے پہر خود سے پوچھا کہ نئے گھر کے متلاشی اس نوجوان جوڑے سے میں کس کی طرف سے معافی مانگوں؟ شاید مجھے اس مارکیٹنگ والے بندے کی طرف سے مانگنی چاہیے جو ممکنہ طور پر اپنے باس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔

راشٹریہ بجرنگ دل کے اراکین جموں میں ٹی20 ورلڈ کپ میچ میں پاکستان کی فتح کا جشن منانے والوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں
راشٹریہ بجرنگ دل کے اراکین جموں میں ٹی20 ورلڈ کپ میچ میں پاکستان کی فتح کا جشن منانے والوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

مگر کیا مجھے ہماری خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوری مملکت کے وزیرِاعظم کی جانب سے بھی معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہی کی جاسکتی ہے؟

کیا مجھے اس ملک کے ہر باسی کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے گزشتہ برس مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پھر جب 2021ء میں کمبھ میلہ وائرس کے شدید پھیلاؤ کا باعث بنا تب ان کی سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا؟

کیا مجھے یونین وزیرِ داخلہ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جنہوں نے بنگلادیشی مہاجرین کو 'دیمک' پکارا تھا؟ کیا مجھے اپنے ان 'دوستوں' کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو روزانہ واٹس ایپ گروپس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں؟ کیا مجھے اس پورے نظام کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جو مسلمانوں کو برملا انداز میں بُرا بھلا کہنے اور ان کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے کٹر دائیں بازو والوں کو اس ملک میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے؟

اونچی ذات کا ہندو ہونے کے ناطے 2021ء کے اس بھارت میں اس مسلمان خاندان سے مجھے کتنی باتوں کی معافیاں طلب کرنی چاہئیں؟

دراصل جب ٹی20 ورلڈکپ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی ٹیم کی بدترین شکست پر مبیّنہ طور پر جشن منانے والے بھارت کے ایک طبقے خصوصاً کشمیری مسلمانوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غم و غصہ اور اس موضوع پر چند حلقوں کی جانب سے جاری عوامی مباحثہ دیکھا تو مجھے کلکتے کے اس واقعے کی یاد تازہ ہوگئی۔

مزید پڑھیے: ہندوتوا کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

پتا چلا ہے کہ کشمیر پولیس نے پاکستان کی فتح کا جشن منانے اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر Unlawful Activities Prevention Act (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قانون کے تحت چند مقامی طلبہ پر مقدمہ درج کیا ہے جبکہ راجستھان میں ایک اسکول ٹیچر کو پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے پر نوکری سے برخاست کردیا گیا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی کھیل میں آپ کس ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں، یہ مکمل طور پر آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ کے دوران تقریباً ایک لاکھ تماشائیوں نے محض ساروو گانگولی کو بھارتی ٹیم میں شامل نہ کرنے پر جنوبی افریقہ کو سپورٹ کیا تھا۔

جب بھی گریم اسمتھ ظہیر خان کی گیند کو باؤنڈری کے پار بھیجتے تو تماشائیوں میں خوشی کی لہر دوڑ اُٹھتی۔ اس دن بھاری شکست کے بعد میدان سے واپسی پر طیش میں آئے ہوئے گریگ چیپل نے اسٹیڈیم کے باہر کھڑے شائقین کو نازیبا اشارے کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔

کیا ان تماشائیوں کو بھارت مخالف یا قوم دشمن قرار دیا جاسکتا ہے؟

ہمیں خود سے لازماً یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی مسلمان اس ملک میں خود کو تنہا کیوں محسوس کرنے لگے ہیں؟ میں نے اوپر جو واقعہ بیان کیا وہ کلکتہ میں پیش آیا تھا، مگر تصور کیجیے کہ آج فیض آباد یا گورکھ پور میں ایک عام مسلمان کی حالت کیا ہوگی؟

کیا ہم بطور اکثریت کبھی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کے اقتدار میں بھارتی مسلمانوں کے لیے رہنا کس قدر دہشت انگیز ہوسکتا ہے جس نے بینگلور کے نوجوان رکن پارلیمنٹ جیسے دائیں بازو کے کٹر پسندوں کو لاڈلا رکھا ہوا ہے؟

بھارتی مسلمانوں کے لیے روزمرہ کا استحصال، حملے، تشدد کے ذریعے قتل کردینے کے واقعات، نفرت انگیز تقاریر اور قتل کی کھلے عام دھمکیاں اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اس ملک میں ہر روز انہیں خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کروایا جاتا ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ غزالہ جمیل کہتی ہیں کہ 'ان واقعات کے پیچھے تصور یہی تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے آپ کو کہیں بھی کسی بھی وقت نشانہ بنایا جاسکتا ہے'۔ اور اگر انہیں تنہا کردینے کے عمل کا نتیجہ اتوار کے روز پاکستان کی فتح کے مبیّنہ جشن کی صورت میں برآمد ہوا ہے تو اس کا الزام کس پر عائد ہونا چاہیے؟

یہ جو کھیل ہوتا ہے، یہ رنگ، نسل یا شناخت کے تضادات سے ماورا ہوتا ہے۔ بھارت میں کرکٹ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں جب فرقہ وارانہ تناؤ اپنے عروج پر تھا اس وقت بھی محمد اظہرالدین پر کوئی کیچڑ نہیں اچھالا کرتا تھا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک شائقین کرکٹ مذہبی تفریقات کو ایک طرف رکھ کر اظہرالدین کو کلائی کا شاندار طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اور اسی طرح سچن کی اسٹریٹ ڈرائیو دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔

مزید پڑھیے: ’بندے مار دو، لیکن املاک نہ جلاؤ‘

اگر تھوڑا اور ماضی میں جائیں تو پائیں گے کہ نواب آف پتوڈی، وہ مسلمان کپتان تھے جن کی قیادت میں بھارت (کی ٹیم) نے غیر ملکی میدانوں پر عزت کمانا شروع کی تھی۔

کیا افغانستان میں پیدا ہونے والے سلیم درانی سے 60ء اور 70ء کی دہائی میں شائقین کی محبت مذہبی شناخت کی محتاج تھی؟ ان کی ٹیم میں سلیکشن نہ ہونے پر بمبئی میں 'No Durrani, No Test' کے پلے کارڈز دکھانے والے ناراض شائقین کا مجمع صرف مسلمانوں پر مشتمل تھا؟ کیا کبھی ساروو کی زیرِ کپتانی ٹیم میں شامل خان، پٹھان اور کیف کے نام والے کھلاڑیوں کو پاکستان کے خلاف کھیلتے وقت کبھی کسی قسم کی دشواری کا سامنا کرنا پڑا؟

یہ ساری باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جو کبھی جڑا تھا وہ کہیں ٹوٹ سا گیا ہے۔ محمد شامی پر ہونے والے زبانی حملے، بی سی سی آئی اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی خاموشی اور اقلیتی طلبہ کو پاکستان کی جیت کا 'جشن' منانے پر سزا دینے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ایک میچ ہی نہیں ہارا بلکہ ہم بہت کچھ ہار بیٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی قومی شناخت کو بھی کھو بیٹھے ہیں۔


یہ مضمون سب سے پہلے دی وائر اور بعدازاں ڈان، ای او ایس میں 14 نومبر 2021ء کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

انجنیئر حا مد شفیق Nov 17, 2021 10:21pm
بہت زبردست تحریر آخر پے شکریہ قائداعظم
Faheem Nov 21, 2021 02:21am
Say thanks to your Modi G. This was inevitable after his radical policies.