’ہمیں بابر کی کپتانی سے نہیں، ان کی بیٹنگ سے پریشانی ہونی چاہیے‘

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2021
بابر اعظم: نہ پیچھے ہٹنے والا، نہ جھکنے والا!
بابر اعظم: نہ پیچھے ہٹنے والا، نہ جھکنے والا!

بابر اعظم کو تمام فارمیٹس میں کپتان بنے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کا اب تک کا سفر کیسا گزرا؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ کپتانی کے مقابلے میں بہت بہتر کھلاڑی ہیں۔ اگرچہ بابر ٹیسٹ کرکٹ میں اب تک اپنے جوہر نہیں دکھا پائے ہیں اور شاذ و نادر ہی کُھل کر بیٹنگ کرسکے ہیں مگر محدود اوورز کی کرکٹ کو وہ بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اس کے رنگ کو زبردست طریقے سے اپنا چکے ہیں۔

تاہم ان کے کارناموں کے آگے یہ شکایتیں بہت ہی معمولی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ایک اچھے کپتان ہیں، جس کا اندازہ ان کی موجودہ طرزِ قیادت سے لگایا جاسکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور بھی بہتر کپتان بن کر سامنے آئیں گے۔

ہمیں یاد ہے جب رکی پونٹنگ کو کپتان بنایا گیا تھا تو بہت سوں کو یہ غیر سنجیدہ فیصلہ لگا تھا۔ چند لوگوں نے ان سے توقعات بھی وابستہ کیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیو وا کی راہ پر چلنے کی جی جان سے کوشش کر رہے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پونٹنگ افسوس کے ساتھ اس جارج ڈبلیو بش کی طرح نظر آئے، جو 20ء کی دہائی کے وسط میں شاید ہی کسی کی آنکھ کا تارا رہے ہوں۔

آسٹریلوی ٹیم ان کی زیرِ کپتانی اپنی پہلی ایشز سیریز میں ناکامی سے دوچار ہوئی۔ دو دہائیوں میں پہلی بار آسٹریلیا کو اس سیریز میں شکست ہوئی تھی۔ ابتدا میں زوال کے بعد بہت سے نقادوں نے پونٹنگ پر کڑی تنقید شروع کردی، لوگوں نے کہنا شروع کردیا: یہ آدمی ایک اچھا کپتان نہیں ہے۔

تاہم آگے چل کر ان کی کپتانی میں آسٹریلوی ٹیم نے سب سے زیادہ ٹیسٹ فتوحات حاصل کیں۔ یہ اعزاز گریم اسمتھ کو بھی حاصل نہیں ہے (ستم ظریفی یہ ہے کہ گریم اسمتھ کو جب کپتانی سونپی گئی تھی تب ان کا استقبال بھی شکوک شبہات سے بھرپور نظروں نے کیا تھا)۔ آج یہ بڑی ہی خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ بش جیسا نظر آنے والا شخص اب آسٹریلوی کمنٹری باکسز کو دانشوری اور بردباری بخشتا ہے جو ان باکسز میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔

پڑھیے: ٹی20 ورلڈکپ 2021ء پاکستان کے لیے کن کن حوالوں سے نیک شگون ثابت ہوا؟

بلاشبہ بابر کو ان سے تشبیہہ دینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ بابر کو نوجوان پونٹنگ کی طرح نظم و ضبط سے جڑے مسائل پر قابو پانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پونٹنگ کو شین وارن، گلین مک گراتھ، ایڈم گلکرسٹ، جسٹن لینگر اور میٹھیو ہیڈن جیسی بھاری بھرکم شخصیات کی قیادت کرنی پڑتی تھی۔ دوسری طرف بابر ایک ایسی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں جن میں شامل اکثر کھلاڑیوں کی عمریں 20 کے پیٹے میں ہیں۔

تاہم رنز کے وزن اور ان کی ٹیموں میں شامل اگلے بہترین کھلاڑی کے معیار میں وسیع فرق کو دیکھیں تو یہ موازنہ بنتا ہے، کم از کم دونوں میں یہ بات تو مساوی ہے کہ پونٹنگ اور بابر نے بقول شخصے اپنی روایت شکنی کے باعث ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں میں احترام ضرور کمایا ہے۔ رنز اور احترام کی کمائی کسی بھی کپتان کے لیے ایک اچھا آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ حکمتِ عملی، زاویے اور انتظام کاری کا فن تو وقت کے ساتھ سیکھا جاسکتا ہے۔

اور بابر سیکھے گا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بابر کو یہ سیکھنا باقی ہے کہ دوسرے دن جب مخالف ٹیم ایک وکٹ کے نقصان پر 220 رنز بنا چکی ہو تو وکٹ کس طرح نکالی جاتی ہے، یا پھر چوتھے یا پانچویں دن جب مخالف ٹیم نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 140 رنز بنا لیے ہوں تو میچ کو اپنے قابو میں کیسے لایا جاتا ہے، مطلب یہ کہ انہوں نے حالات کو پرکھنے کا فن ابھی تک نہیں سیکھا۔

محدود اوورز کی کرکٹ میں بابر پُرسکون رہنا بھی سیکھیں گے۔ عام طور پر ٹھنڈے مزاج کے حامل نظر آنے والے بابر کی آواز آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں پریشر بڑھنے پر بہت ہی اونچی ہوگئی اور ہونٹوں کی حرکت سے اندازہ ہوتا تھا کہ نوبت دشنام طرازی تک پہنچنے لگی تھی۔

مگر ایم ایس دھونی، ڈیرن سیمی، این مورگن اور کین ولیمسن جیسے کپتانوں کی طرح ٹی20 میچ میں ٹیم کی قیادت کے دوران ہر دم محتاط رہنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے: ایک ایسی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے جو آپ کو مشکل صورتحال کے بیچ ایک قدم پیچھے ہٹ کر گہری سانس لینے اور صورتحال کو اپنے لیے بہتر بنانے کا موقع فراہم کرسکے۔ پاکستان کو اگر آئی سی سی ٹرافیاں جیتنی ہیں تو بابر کو اعصاب پر قابو پانے کا فن بھی سیکھنا ہوگا۔

اگرچہ بابر نے اس طرح کے ٹورنامنٹ میں اپنے پہلے تجربے میں بہت ہی اچھی کارکردگی پیش کی ہے لیکن ہمیں ان سے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ بلاشبہ انہوں نے رنز کے پہاڑ کھڑے کیے، ٹیم کو متحد رکھا، اور ایک ایسی ٹیم کی قیادت کی جو ایک ہی وقت میں خوفزدہ اور منظورِ نظر بھی تصور کی جاتی ہے، یقیناً ایسی صورتحال میں توازن قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔

ڈریسنگ روم میں ان کی الوداعی تقریر ٹھیک ویسی ہی تسکین آمیز تھی جس کی ضرورت تھی، یہ الگ بات ہے وہ کھلاڑیوں سے زیادہ شائقین سے مخاطب محسوس ہوئے۔ بعداز میچ پریزنٹیشن میں جب بابر کو 'ٹرننگ پوائنٹس' سے متعلق ایک اہم سوال میں پھنسایا گیا تو ان کی جانب سے واشگاف الفاظ میں حسن علی کی حمایت کا اظہار ایک اہم امر تھا۔

پڑھیے: ’ہم پاکستان کے خلاف محض ایک میچ نہیں بلکہ بہت کچھ ہارے ہیں!‘

اس بات پر تو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ حسن علی ایک سپر اسٹار ہیں اور پاکستان کرکٹ خوش نصیب ہے کہ جسے ان جیسا کھلاڑی ملا ہے۔ وہ تینوں فارمیٹس میں بلے بازی، گیندبازی اور فیلڈنگ کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مان لیا کہ اس ٹورنامنٹ میں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے سے تھوڑا چوک گئے مگر حیرت ہے کہ کچھ شائقین کی یادداشت اتنی کمزور کیسے ہوسکتی ہے! 9 ماہ قبل یہی حسن علی تمام فارمیٹس میں ہر قسم کے حالات میں پاکستان سے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز تک فاتحانہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آنے والے برسوں میں وہ قومی ٹیم کی قوت کا ایک اہم جزو بن کر ابھریں گے۔

یہ بات درست ہے کہ حسن علی اس بار اپنے اصل رنگ روپ میں نہیں تھے اور اوور کی پہلی گیند پر باؤنڈری یا ایکسٹرا رن کھانے کی خراب عادت نے آسٹریلیا کے خلاف شکست میں اہم کردار ادا کیا مگر ان کی جانب سے کیچ پکڑنے میں ناکامی کو ہار کا سبب نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کھیلوں کے میدانوں میں یہ اصول نہیں چلتا۔

درحقیقت 'ٹرننگ پوائنٹ' کا تصور ہی سرے سے خراب ہے۔ باسکٹ بال کے تجزیہ کاروں کی بات ہی سن لیجیے، جن کے نزدیک مقابلے کے پہلے کوارٹر میں اسکور ہونے والے پوائنٹ کی جتنی اہمیت ہوتی ہے اتنی ہی اہمیت چوتھے کوارٹر میں ہونے والے پوائنٹ کی بھی ہوتی ہے۔

ٹی20 کرکٹ میں 40 اوورز ہوتے ہیں، یعنی تکنیکی اعتبار سے اس کھیل میں تو پھر 240 ممکنہ ٹرننگ پوائنٹس ہوئے۔ اب کچھ ٹرننگ پوائنٹس اس لیے اتنے یاد رہ جاتے ہیں کیونکہ انہیں بار بار ٹی وی چینلوں پر ویڈیو پیکجوں کے ذریعے دکھایا جارہا ہوتا ہے۔

اب جب ہم میچ میں آنے والے اہم موڑ کا تذکرہ کر رہے ہیں تو پھر مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ چار بار رن آؤٹ نہ کرنے میں ناکامی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

اچھا جب میچ میں آسٹریلیا کے لیے غیر یقینی کی صورتحال بنی ہوئی تھی اس وقت بابر کی جانب سے حالات کو مدِنظر رکھے بغیر پہلے سے طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت نئی گیند سے کمال دکھانے مگر ڈیوڈ وارنر کے لیے آسان ہدف تصور کیے جانے والے عماد وسیم کو چوتھا اوور دیے جانے پر کیا کہیں گے؟

پاکستان کی جانب سے جب بابر اچھا کھیل رہے تھے، بلے کا اچھا استعمال کر رہے تھے اور موقع دیکھ کر بلے بازی کر رہے تھے مگر تیسرے یا چوتھے گیر سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اس کے نتیجے میں جب پہلے 10 اوورز میں 80 یا 90 رنز کے بجائے 71 رنز ہی بن پائے، کیا یہ میچ کا اہم موڑ قرار نہیں دیا جاسکتا؟

ٹی 20 کرکٹ میں بابر کی کپتانی سے زیادہ ان کی بلے بازی قابلِ تشویش ہے۔ بابر اعظم کا مختصر فارمیٹ میں پہلے نمبر پر آنے کا ٹی20 رینکنگ کے لیے مرتب کردہ شرائط میں خرابیوں سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ بطور کھلاڑی ان کے ناقابلِ تردید معیار سے ہے۔

پڑھیے: اب سمجھ آیا کہ آسٹریلیا کو دنیائے کرکٹ کی سپر پاور کیوں کہا جاتا ہے؟

ٹیسٹ میں اسٹرائیک ریٹس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایک روزہ میچوں میں ان کی اہمیت اوسط جتنی ہی ہوتی ہے۔ تاہم ٹی20 میچوں میں اسٹرائیک ریٹس کی اوسط سے بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ مگر باضابطہ ٹی20 رینکنگز میں اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ یوں ٹی20 رینکنگ میں لمبی باری کھیلنے والوں کو ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور مڈل آرڈر میں شامل ہٹنگ اور میچ فنشرز کی جانب زیادہ دھیان ہی نہیں دیا جاتا۔ مثلاً، ڈیوڈ ملان تکنیکی طور پر دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں لیکن وہ اپنے ملک کے 5 بہترین ٹی20 بلے بازوں میں بمشکل شمار ہوتے ہیں جبکہ انہیں انگلینڈ کی بہترین ٹیم میں بھی شامل نہیں کیا جاسکتا۔

بہت سے تجزیہ کار پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ بابر-رضوان کی اوپننگ جوڑی اس ٹیم کے لیے رنز کے اعتبار سے خطرے کا باعث بن سکتی ہے جو پہلے بلے بازی کا انتخاب کرے گی۔ حالیہ ٹورنامنٹ میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر درستگی کا تقاضا نہیں کرتا لیکن یہ بات قابلِ غور ضرور ہے کہ بابر ابتدا ہی سے کھل کر کھیلنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جب وہ کھل کر کھیلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو کامیاب نہیں ہوپاتے۔

جس طرح غزل گائیک پاپ گانے نہیں گا سکتا یا بحری جہاز جھیل پر سفر نہیں کرسکتا ٹھیک اسی طرح میدان پر جب حالات کچھ الگ کرنے کا تقاضا کریں تو بلے باز ان حالات میں خود کو ڈھال نہیں پاتے۔

عام میدانوں پر تو دنیا کی اس کامیاب ترین اوپننگ شراکت داری کو توڑنے کا تصور بھی دیوانے کا خواب لگتا ہے لیکن اگلا ٹی20 ورلڈ کپ آسٹریلوی میدانوں پر کھیلا جا رہا ہے، جہاں 185 رنز محفوظ ہدف قرار نہیں دیا جاسکتا اور بلے بازوں کو 200 سے 220 رنز بنانے ہوں گے۔

اس ٹورنامنٹ میں فتحیاب ہونے کے لیے پاکستان کو ہر میچ میں پاور پلیز کے دوران 55 یا اس سے زائد رنز بنانے پڑیں گے۔ کیا بابر/رضوان ایسا کرسکتے ہیں؟ ممکن ہے کہ اگر بابر کو تیسرے نمبر پر بھیج کر اور فخر یا کسی ہٹر (حیدر علی کے بارے میں کیا خیال ہے؟) کو رضوان کے ساتھ اوپننگ کا موقع دیا جائے تو ٹی20 سے وابستہ امیدیں شاید زیادہ روشن ہوسکتی ہیں۔


یہ مضمون 21 نومبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ahsan Nov 24, 2021 02:44pm
Excellent analysis. The writer has great idea of cricket and presented a good overview of lack of hitting ability of Baber. The solution he has provided is the one which has been discussed recently and needs to be considered sooner than later for taking advantage of first 6 overs.
Asad Ali Nov 25, 2021 12:37am
what a piece of junk article,