حکومت پنجاب کا بلدیاتی انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کیلئے قانون میں ترمیم کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2021
پنجاب حکومت لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ (پی ایل جی اے) 2021 کے بارے میں اپنی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب رہی
— فائل فوٹو: اے ایف پی
پنجاب حکومت لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ (پی ایل جی اے) 2021 کے بارے میں اپنی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب رہی — فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: حکومت پنجاب نے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) متعارف کرانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی قانون سازی کر چکی ہے اور آئندہ تمام انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کو لازمی قرار دے چکی ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابات ای وی ایم پر نہ ہوئے تو حکومت الیکشن کمیشن کو فنڈ نہیں دے گی، فواد چوہدری

اس ضمن میں پنجاب حکومت لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ (پی ایل جی اے) 2021 کے بارے میں اپنے اتحادی مسلم لیگ (ق) کے تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے کہا کہ وفاقی حکومت نے قانون سازی کی ہے کہ ضمنی انتخابات سمیت آئندہ تمام انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرائے جائیں گے تو پنجاب اس قانون سے کیسے انحراف کر سکتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت اب پوری شدت سے چاہتی ہے کہ تمام آنے والے انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال سے متعلق شق کو پی ایل جی اے 2021 میں شامل کیا جائے، جو اس وقت حتمی مراحل میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات سمیت اگلے تمام انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرائے جائیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں ای وی ایم پر حکومت اور اپوزیشن کی تکرار

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی عندیہ دیا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن، ای وی ایم کے ذریعے انتخابات نہیں کرواتا تو حکومت، کمیشن کو فنڈز فراہم نہیں کرے گی۔

اس دوران کمیشن نے پنجاب حکومت سے کہا کہ وہ ترمیم شدہ پی ایل جی اے 2021 کا مسودہ ایک ہفتے میں پیش کرے، بصورت دیگر قانون کے مطابق ایل جی کے انتخابات کرائے جائیں گے۔

ای سی پی کے ایک اہلکار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ای سی پی قانون کے ترمیم شدہ مسودے کے مطابق حلقوں کی نئے سرے سے حد بندی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، بصورت دیگر وہ ایل جی کے حلقوں کی پرانی حد بندی کے مطابق انتخابات کرانے پر مجبور ہو جائے گا۔

تاہم اپوزیشن جماعتوں نے پنجاب حکومت کے تمام اہم قانون سازی کو بلڈوز کرنے کے منصوبے کو سختی سے مسترد کردیا۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ایل جی اے 2021 کو غیر جمہوری طریقے سے منظور کیا جارہا ہے کیونکہ کسی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت نہیں کی گئی ہے۔

یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے بھی پہلے اعتراضات اٹھائے تھے اور اس کے وزیر محمد رضوان نے پنجاب کابینہ کا اجلاس ناراضی ظاہر کرتے ہوئے چھوڑ دیا تھا کہ ان کی پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: ای وی ایم سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر وزیراعظم کی اتحادیوں، وزرا سے ملاقات

گورنر پنجاب چوہدری سرور اس وقت ملک سے باہر ہیں اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی گورنر کا قائم مقام چارج سنبھال رہے ہیں، اس لیے انہوں نے پی ایل جی اے 2021 میں مجوزہ ترامیم پر بریفنگ طلب کی۔

مسلم لیگ (ق) کے پنجاب کے صدر پرویز الہٰی نے مطالبہ کیا تھا کہ تحصیل کونسلوں کو بلدیاتی نظام کا حصہ بنایا جائے اور ساتھ ہی میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل چیئرمین کے لیے اہلیت کے تقاضے بھی طے کیے جائیں۔

وزیر اعلیٰ نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مشاورت جاری رکھنے اور ان کے اعتراضات کو دور کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئے ایل جی ایکٹ کا مسودہ نچلی سطح پر بااختیار بنانے کے لیے مشاورت اور سخت محنت سے تیار کیا گیا ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت کے سرکاری وفد نے ایک مرتبہ پھر پرویز الہٰی سے ملاقات کی اور انہیں باور کرایا کہ تحصیل کونسلوں کو قانون میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

اس اعتراض پر کہ میئر اور ضلع کونسل کے چیئرمین کے لیے کم از کم انٹرمیڈیٹ تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، وفد نے قائم مقام گورنر کو بتایا کہ اہلیت کا پہلو شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رکن صوبائی و قومی اسمبلی کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔

قانون میں مجوزہ ترامیم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے تمام اہم قانون کی تیاری کے دوران اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کی زحمت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی کمیٹیوں کے ذریعے قانون سازی کر رہی تھی جبکہ پنجاب اسمبلی میں بحث کی اجازت نہیں دی گئی۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مجھے اسمبلی اجلاس سے اس وقت معطل کر دیا گیا جب میں نے گزشتہ مالی سال کے آخر تک مجوزہ قانون پر بحث کرنے کی کوشش کی۔

اگلے انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کو لازمی قرار دینے کے پنجاب حکومت کے منصوبے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ کون ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کریں کہ انتخابات کیسے کرائے جائیں؟ یہ ای سی پی کا واحد مینڈیٹ ہے۔

پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکمراں جماعت نے ہمیشہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر ’قانون سازی‘کی۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ق) پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات میاں عمران مسعود کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے بعد انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال کی حکومتی تجویز کو قبول کر لیا جس کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو تحفظات کی وجہ سے مختصر طور پر ملتوی کرنا پڑا۔

تاہم عثمان بزدار انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کے لیے اکتوبر میں ہچکچاتے ہوئے صوبے میں مقامی حکومتوں کو بحال کر دیا۔ موجودہ مقامی حکومتوں کی مدت 31 دسمبر کو ختم ہو جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں