فائرنگ سے 200 فلسطینیوں کا قتل، ’اسرائیل تحقیقات کرنے میں ناکام‘

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2021
سال 2018 میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نشانہ بازوں سمیت عام شہریوں کو ہلاک کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
سال 2018 میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نشانہ بازوں سمیت عام شہریوں کو ہلاک کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

دائیں بازو کے گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل حال ہی میں غزہ کی سرحدی پٹی پر احتجاج کے دوران فائرنگ سے 200 فلسطینیوں کو ہلاک اور ہزاروں کو زخمی کرنے کے حوالے سے تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے، یہ ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمے کو مضبوط کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’عوامی فسادات‘ غزہ کے حماس رہنما کے منظم کردہ تھے جس کا مقصد سرحد پر کیے گئے ان کے حملوں پر پردہ ڈالنا تھا۔

فوج نے کہا کہ مبینہ بدسلوکی کی مکمل تحقیقات کی گئی تھی اور واقعے میں ملوث فوجیوں کو جواب دہ ٹھہرایا گیا تھا۔

مارچ 2018 سے غزہ کے سماجی اراکین کی جانب سے ہفتہ وار احتجاج کیا جاتا ہے، ابتدائی طور پر احتجاج کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کی حالت زار کی نشاندہی کرنا تھا، جہاں یہ پناہ گزین موجود ہیں یہ علاقہ اب اسرائیل کا حصہ ہے اور یہ غزہ کی تین چوتھائی آبادی پر مشتمل ہے اور یہاں 2 لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کے غزہ پر پھر فضائی حملے، فائرنگ سے فلسطینی خاتون جاں بحق

ناقدین کے مطابق حماس نے جلد ہی مظاہروں کا ساتھ دیا اور جب اس گروپ نے 2007 میں حریف فلسطینی فورسز سے اقتدار حاصل کیا تو علاقے میں اسرائیلی-مصری ناکہ بندی کو کم کرنے کے لیے مظاہروں کا استعمال کیا گیا۔

18ماہ سے تقریباً ہر ہفتے ہزاروں فلسطینی غزہ کی سرحد کے مختلف مقامات پر جمع ہوتے ہیں اور مظاہرہ کرتے ہوئے ٹائر نذر آتش کرتے ہیں اور فائر بم پھینکتے ہیں۔

مظاہروں کے دوران اسرائیلی نشانہ بازوں کی جانب سے گولیاں ماری گئی تھیں، ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس بھی پھینکی گئی تاہم اسرائیل نے اس عمل کو اپنا دفاع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب اسرائیل پر دھاوا بولنے والے ہزاروں فلسطینیوں سے حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔

غزہ کے انسانی حقوق کے مرکز المیزان کے مطابق اسرائیلی فائرنگ میں تقریباً 215 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جس میں متعدد غیر مسلح تھے، ہلاک ہونے والوں میں 47 کی عمر 18 سال سے کم تھی اور ان میں 2 خواتین بھی شامل تھیں۔

علاوہ ازیں 2019 کے اختتام میں ہونے والے مظاہروں میں متعدد مظاہرین شدید زخمی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کو نظرانداز نہ کرے، انجیلا مرکل

سال 2018 میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نشانہ بازو کو ہلاک کردیا تھا، واقعے میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے بیشتر سرحد کے احاطے سے دور تھے۔

اسرائیلی دائیں بازو کے گروپ بتسلیم اور غزہ میں واقع انسانی حقوق مرکز برائے فلسطین کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، سینئر کمانڈرز کے دیے گئے احکامات کے مسئلے کی تحقیقات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور ابتدائی طور پر کسی فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اپریل میں فیکٹ فائنڈنگ میکانزم کے ذریعے اسرائیلی فوج کو پراسیکیوٹر کو منتقل کیے گئے 143 کیسز میں سے 95 بغیر کسی کارروائی کے ختم کردیے گئے، 14 سالہ فلسطینی لڑکے کو قتل کرنے سے متعلق واحد کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی لیکن یہ کیس بھی التوا شکار ہے۔

مذکورہ اعداد و شمار معلومات کی آزادی کے قانون کے پیش نظر درخواست پر اسرائیلی فوج سے حاصل کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جن سپاہیوں کی نشاندہی کی گئی انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے زندگی اور صحت کو خطرے میں ڈالا ہے اور انہیں ایک ماہ کمیٹی سروس کی سزا سنائی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں