'سیالکوٹ واقعے سے سری لنکا، پاکستان کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے'

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2021
موہن وجے وکرما نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
موہن وجے وکرما نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان میں تعینات سری لنکن ہائی کمشنر موہن وجے وکرما نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں فیکٹری ورکرز کی جانب سے سری لنکن فیکٹری مینیجر کو تشدد کر کے ہلاک کرنے اور لاش کو آگ لگانے کے واقعے سے پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں اور اس ملک میں کسی سری لنکن شہری کے لیے ایسا کوئی واقعہ مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ واقعہ ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک انفرادی واقعہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: مزید 7 مرکزی ملزمان گرفتار، مجموعی تعداد 131 ہوگئی

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ حکومت پاکستان نے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ریمانڈ دیا گیا اور قانونی کارروائی پر عمل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے ہم دونوں ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے، ہمارے تعلقات اس وقت سے ہیں جب ہم نے آزادی حاصل کی تھی اور اس کے بعد سے پاکستان ہمارا اچھا دوست رہا ہے، جو ہمیشہ ہماری مدد کو آیا ہے۔

سری لنکن ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ حکومت پاکستان اس واقعے سے اس طرح سے نمٹے گی کہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکے۔

مزید پڑھیں: پریانتھا کمارا کی اہلیہ کی پاکستانی، سری لنکن رہنماؤں سے انصاف کی اپیل

انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں کہ پریانتھا جس کمپنی میں ملازم تھے وہاں سے ان کے خاندان کو معاوضہ مل سکے۔

واقعے کے پسِ پردہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے، پی ٹی آئی رہنما

اسی موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفد میں شامل پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سری لنکن شہری کے ساتھ پیش آئے واقعے پر معذرت اور تعزیت کرنے آئے تھے جس کی ہمیں بہت شرمندگی ہے کہ ایسا واقعہ پیش آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام کی یہ ذہنیت نہیں ہے اور خود سری لنکن ہائی کمشنر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ 99 فیصد پاکستانیوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک پاکستانی عدنان ملک ہے جنہوں نے پریانتھا کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: مزید 6 مرکزی ملزمان زیر حراست، دیگر کی تلاش میں چھاپے جاری

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں قوم، پارٹی کی جانب سے اس بہیمانہ واقعے کی مذمت کرنے آئے تھے اور امید ہے کہ ہم آئندہ بحیثیت قوم سوچیں گے اور مستقبل میں ناصرف ایسے واقعات کو روکنے کی کوشش کریں گے بلکہ اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔

وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے بیان سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بیان کی تصحیح کردی ہے لیکن میں ہر اس بیان کی مذمت کروں گا جس نے کسی بھی طرح اس واقعے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی، ہم اس کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔

دلخراش واقعہ

واضح رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل، پاکستان کیلئے شرم ناک دن ہے، وزیراعظم

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملہ کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیےان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں