سانحہ سیالکوٹ: پولیس نے مزید 33 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2021
ملزمان کو 3 جنوری 2022 کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا — فوٹو: ڈان نیوز
ملزمان کو 3 جنوری 2022 کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا — فوٹو: ڈان نیوز

سیالکوٹ پولیس نے سری لنکن شہری کو بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کرنے اور جلانے کے واقعے میں ملوث مزید 33 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا جن کا عدالت نے ریمانڈ دے دیا۔

کیس کے تفتیشی افسر انسپکٹر طارق محمود کے مطابق واقعے کے مزید 33 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس کے بعد گرفتار مرکزی ملزمان کی تعداد 85 ہوگئی ہے۔

بعد ازاں ملزمان کو گجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں فاضل عدالت نے ملزمان کو 17 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ملزمان کو 3 جنوری 2022 کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

پولیس کی جانب سے 52 مرکزی ملزمان کا ریمانڈ پہلے ہی حاصل کیا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ سری لنکن شہری کو جلائے جانے کے واقعے پر اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: پولیس نے مزید 18 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا

درخواست گزار نے کہا کہ مظاہرین نے ان کی موجودگی میں پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو آگ لگادی۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کی کمی کے باعث وہ مشتعل ہجوم کے آگے بے بس تھا۔

پس منظر

خیال رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملے کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیے ان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ڈسٹرکٹ بار کا مشتبہ ملزمان کی نمائندگی سے انکار

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

افسوسناک واقعے پر ملک بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مذمت کی اور ملزمان کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’ہولناک حملہ‘ قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا دن ہے، میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہو اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قانون کے دائرہ کار میں تمام ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔‘

پریانتھا کمارا کی میت 6 دسمبر کو ان کے ملک سری لنکا بھیجی گئی تھی۔

سیاسی اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت ’جامع حکمت عملی‘ کے تحت مذہبی انتہا پسندی کو روکے گی تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں