اصل کرپشن وزیراعظم اور اس کے وزرا کرتے ہیں، عمران خان

18 دسمبر 2021
وزیراعظم نے الجزیرہ عربی کو انٹرویو دیا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے الجزیرہ عربی کو انٹرویو دیا—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل کرپشن وزیراعظم اور اس کے وزرا کرتے ہیں۔

الجزیرہ عرب کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد میں روحانیت کی جانب مائل ہوا اور اپنی سمت تبدیل کی۔

مزید پڑھیں: پاکستان، امریکا اور چین کے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا چاہتا ہے، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ سے یہ محسوس کیا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز کی فلاحی ریاست ہونا چاہیے، ہمارے نبی ﷺ کی تشکیل دی گئی ریاست مدینہ انسانی تاریخ کی اولین فلاحی ریاست تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے بانیان کی منظور کردہ قرار دار میں بھی یہی مقصد تھا کہ ملک ایک فلاحی ریاست ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلےتو میں یہ چاہتا تھا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست بنے جو وہ نہیں تھا، دوسرا ہم پر دو بدعنوان خاندانوں نے حکومت کر رکھی تھی، ان دونوں خاندانوں کو میں جانتا تھا۔

'بینظیر اور نواز شریف دونوں کرپٹ تھے'

انہوں نے کہا کہ میں بینظیر اور نواز شریف دونوں کو جانتا تھا، وہ دونوں کرپٹ تھے تو جب انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے پیسہ بنانا شروع کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کرپشن ملک تباہ کردیتی ہے، غریب ممالک اس لیے غریب نہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان کے لیڈرز کرپٹ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا تجاوزات میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے اس لیے اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا کیوں کہ جب انصاف ہوتا ہے تو بدعنوانی نہیں ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی معاشرہ اس وقت ہی مہذب بنتا ہےجب وہاں قانون کی حکمرانی ہو، ریاست مدینہ کے 2 اہم رہنما اصول قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ بدعنوان ہے جب تک انہیں قانون کے تابع نہیں کیا جاتا ملک کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ جب وزیراعظم اور وزرا ملک کا پیسہ چرانا شروع کردیتے ہیں تو ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں میری جدو جہد اسی بدعنوان حکمران اشرافیہ کے خلاف ہے جو ہمارے ملک کو تباہ اور مقروض کر رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کہ اپنی تحریک کا آغاز اس لیے کیا کیونکہ ایک تو میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا تھا، دوسرا یہ کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے بدعنوانی سے لڑا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ دو مک مکا کیے بیٹھے خاندان تھے، درحیققت یہ سیاسی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ خاندانی اجارہ داری والی جماعتیں ہیں، جن کی قیادت ملک کے اندر ہی رہتی ہے، ان کے خلاف لڑنا ایسا ہی تھا جیسے مافیا کے خلاف لڑنا کیونکہ انہوں نے مک مکا کر رکھا تھا، ان کے پاس پیسہ تھا وہ ریاستی وسائل استعمال کرتے تھے ان کے خلاف جدو جہد کرنا مشکل تھا۔

مزید پڑھیں:گلگت بلتستان میں سیاحت اتنی بڑھے گی کہ بیرون ملک سے لوگ آئیں گے، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہا کہ دو جماعتی نظام ختم کرنا کٹھن کام ہے، برطانیہ اور امریکا میں بھی دو جماعتی نظام ہے اور جب ملکوں میں 2 جماعتی نظام قائم ہوجائے تو تیسری جماعت کو آگے آنا مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کے خلاف لڑنا جو ابے ایمان اور پیسے والے ہوں اور میڈیا کو آپ کے خلاف استعمال کررہے ہوں تو اس لیے یہ جہدوجہد بڑی مشکل تھی۔

'طویل مدت کیلئے جیل میں ڈال دیاجاتا تو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا'

سیاست میں جیل جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے میں ایک ہفتے کے لیے تھا، میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مجھے طویل مدت کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا تو میں زیادہ عرصہ زندہ نہ رہتا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بہت فعال زندگی گزاری ہے اور اچانک میرے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا، مجھے یاد ہے کہ دن گزرتا ہی نہیں تھا، مجھے نہیں پتا تھا کہ دن کیسے گزرے گا، میرے پاس چند کتابیں تھیں، میں پہلے کبھی ایسے تجربے سے نہیں گزرا تھا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میں مغربی سیاست کو بہت سےلوگوں سے بہتر جانتا ہوں، میری زیادہ مخالفت افغانستان پر تھی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے افغانستان میں کیا وہ پاگل پن ہے۔

'نائن الیون میں کوئی افغان ملوث نہیں تھا'

انہوں نے کہا کہ نائن الیون واقعے میں کوئی افغان ملوث نہیں تھا، انہوں نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے چندسو لوگوں کے لیے پورے ملک پر قبضہ کرلیا، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ القاعدہ کے پیچھے تھے تو القاعدہ دو سال بعد ہی ختم ہوچکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے سارے خاندانوں کو مارچ تک صحت کارڈ ملے گا، وزیراعظم

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایک قوم تشکیل دینا چاہتے تھے، افغان خواتین کو آزادی دینا چاہتے تھے یا جمہوریت کو فروغ دینا چاہتے تھے، لیکن یہ سب کچھ جنگ سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ افغان جنگ کا ناقد رہا اس لیے مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا میں اپنی حکومت کی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتا ہوں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں پاکستان کا مخالف ہوں۔

'اصل کرپشن وزیراعظم اور وزرا کرتے ہیں'

سیاست میں 22 سالہ جدوجہد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا اگر میں نے سیاست کو پیشے کے طور پر لیا ہوتا تو میں سیاست میں نہیں آتا، میرا خیال تھا کہ وہ لوگ جن کے پاس سب کچھ ہو انہیں سیاست میں آنا چاہیے بجائے ان لوگوں کے جو پیسہ بنانے سیاست میں آتے ہیں، لہٰذا یہ میرے لیے ایک مشن تھا۔

وزیر اعظم بننے کے 90 روز بعد ملک میں تبدیلی سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اصل کرپشن وزیر اعظم اور وزرا کرتے ہیں، اور میں نے یہی کہا تھا میں نوے روز میں کرپشن ختم کردوں گا، میری حکومت میں کوئی کرپٹ نہیں ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے وزرا نے کرپشن کی ہے تو سب سےپہلے میں ان کے خلاف تحقیقات کروں گا اس کی ایک اہم مثال شوگر کمیشن ہے جس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جو وزرا اور وزیر اعظم کرتے ہیں دوسری وہ جو نچلےدرجے کے افسران کرتے ہیں لہذا معاشرے میں پھیلی کرپشن کو ختم کرنے میں وقت لگے لگا اور ہمیں امید ہے کہ ہم خودکار نظام کے ذریعے اس کو ختم کردیں گے۔

انہوں نےکہا کہ نبیﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہیں وہ صادق اور امین تھے، انہوں نے ہمیشہ عدل کیا، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میرٹ کا خیال رکھنا چاہیے، تو میں نے کبھی کسی ایسے شخص کو اعلیٰ عہدے پر تعینات نہیں کیا جو اس کے قابل نہیں تھا، ہم نے میرٹ پر فیصلے کیے۔

مزید پڑھیں: اپنی روایات اور دین کے مطابق سیاحت کو فروغ دیں گے، وزیراعظم

معیشت پر انہوں نے کہا کہ ہمیں مالیاتی خسارے، مہنگائی اور قرضے پچھلی حکومتوں سے وراثت میں ملے تھے، ہم نے ان سے نمٹنے کےلیے اخراجات کم کیے تو معیشت متوازن ہونے لگی تھی، اس دوران کورونا وائرس آگیا جس کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں، اور ہم دنیا کی تیسری قوم ہیں جس نے عالمی وبا میں خود کو سنبھالا ہے۔

انہوں نے کہا ہم نے پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم متعارف کروایا ہے اس سے قبل پاکستان کے 8 لاکھ بچے جن کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے دیگر بچے اردو میڈیم اسکولوں اور مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے، ان طبقات کو ختم کرتے ہوئے ہم نے یکساں تعلیمی نظام متعارف کروایا ہے اور اس کا نظام مشکل ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ یکساں نصاب اتفاق رائے سے وجود میں آیا ہے۔

'اسلاموفوبیا اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی وجہ سے پھیلا'

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا بدقسمتی سے اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی غفلت کی وجہ سے پھیلا، نائن الیون کے بعد جب اسلامو فوبیا پھیلا تو کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، کسی نے پورپی یونین اور اقوام متحدہ کو وضاحت نہیں دی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو اسلامو فوبیا کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا سے بچنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے، صرف عمران خان نہیں بلکہ سب کو اس کے لیے کام کرنا چاہیے، جب ہمارے نبیﷺ کا تمسخر اڑایا جاتا ہے تو ہمیں برا لگتا ہے، تکلیف ہوتی ہے، تو میں نے بطور وزیر اعظم جنرل اسمبلی میں خطاب کیا میں کہا تھا کہ یہ ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں لوگ محمد ﷺ سےزیادہ پیار کرتے ہیں، وہ نبی کے خاطر جان دینے کو تیار ہیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ نبی ﷺ کی سنت اور ان کی تعلیمات پر زندگی گزاریں، جیساکہ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا سے بہت مانوس ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ رحمت اللعالمین اتھارٹی کے ذریعے انہیں نبی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دی جائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے تمام تر رول ماڈلز پوپ موسیقار اور کھلاڑی وغیرہ تھے لیکن کرکٹ چھوڑنے کے بعد مجھے صوفی شخصیات نے میری زندگی کو تبدیل کردیا۔

'پاکستان بہت مشکل میں ہے'

افغانستان کے حالات اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان بہت مشکل حالات میں ہے۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان کو افغان جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پہنچا، اسی کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا‘

وزیر اعظم کا کہنا تھا امریکا کے لوگ سمجھ رہے تھے امریکا افغانستان میں جمہوریت لا رہا ہے، وہاں کی خواتین کو خواندہ کر رہا ہے لیکن اچانک افغانستان میں طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا اور افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیے جس کی وجہ سے وہ صدمے کی کیفیت میں ہیں اور غصے کی وجہ سے وہ باشعور فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان ویسے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو افغانستان میں انسانی بحران جنم لے گا، جس کی وجہ سے افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہوگا۔

'کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر کیا'

انہوں نے کہا کہ ہم نے عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا ہے وہاں انسانی حقوق، اسلامی کونسل کی قراردار اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ لوگ کھلی جیلوں میں رہ رہے ہیں، وہاں 9 لاکھ بھارتی فوجیوں نے انہیں کھلی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں پیش کیا، اور اس بارے میں مسلمان ممالک سے بات کی لیکن مسلمان ممالک کے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ہیں تو ہم کسی سے کوئی توقع نہیں رکھ سکتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہیں تو انہیں ویسا ہی جواب دیا جائے گا جیسا کہ فروری 2019 میں دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ملک کا مستقبل 5 سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی کی فاشسٹ حکومت ایسا کرتی ہے تو وہ جوہری ملکوں کو آمنے سامنے لانے کا خطرہ مول لیں گے، بھارت کے شہری بہت باشعور ہیں لیکن بدقسمتی سے وہاں جنونیوں کی حکومت ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے دوران وہ لاک ڈاون کے سب سے زیادہ خلاف تھے، وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ لوگ کورونا سے بچ کر بھوک سے مرجائیں لہٰذا انہوں نے ملک میں اسمارٹ لاک ڈاون کا نفاذ کیا۔

عمران خان نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ بڑے خواب دیکھیں جس کی تکمیل پر آپ کی روح خوش ہو، روح کی خوشی کے لیے دولت ضروری نہیں بلکہ اللہ کی خوشی ضروری ہے اور وہ انسانیت کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں