اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کہتے ہیں کہ سانتا کلاز کے پاس بونوں کی ایک فوج ہے۔ وہ اپنی اس فوج کی مدد سے دُور کہیں قطب شمالی میں پورا سال بچوں کے لیے کرسمس کے تحائف تیار کرتا ہے۔ کرسمس سے ایک رات قبل وہ اپنی بگھی پر ان تحائف کو لاد کر دنیا کی سیر کو نکلتا ہے اور اچھے بچوں کے گھر ان کے تحائف پہنچاتا ہے۔

ہم نے سانتا کلاز تو نہیں دیکھا لیکن اس کے بونوں کی فوج ضرور دیکھی ہے جو قطب شمالی سے بہت دُور چین کے ایک چھوٹے سے شہر میں سال بھر پوری دنیا کے لیے کرسمس کے لوازمات بناتے ہیں۔ ان کی محنت کا نتیجہ ہمیں ہر سال دنیا بھر میں کرسمس کی سجاوٹوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔

جی ہاں، ہم اپنے اردگرد اور دنیا میں کرسمس کی جو رونق دیکھتے ہیں وہ بڑی حد تک چین کی ہی مرہونِ منت ہیں۔ کرسمس کی یہ رونق مشرقی چین میں واقع ای وُو نامی شہر میں بنتی ہے۔ اسی مناسبت سے اس شہر کو کرسمس کا گاؤں بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کرسمس پر استعمال ہونے والا 80 فیصد سامان اسی شہر میں تیار ہوتا ہے۔

سجاوٹی کرسمس ٹری
سجاوٹی کرسمس ٹری

ای وُو کی سیکڑوں فیکٹریاں پورا سال کرسمس پر استعمال ہونے والا مختلف اقسام کا سامان تیار کرتی ہیں، جیسے سانتا کلاز، اس کے بونے، اس کی بگھی، کرسمس ٹری، اس پر سجایا جانے والا سامان، تحائف، انہیں لپیٹنے والا کاغذ اور ربن وغیرہ۔ ان فیکٹریوں میں کام کرتے ہوئے چینیوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہی سانتا کلاز کی بونوں کی فوج ہوں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے لیے کرسمس کے لوازمات تیار کرنے والے خود کرسمس نہیں مناتے۔ چین اپنی ثقافت پر کسی بھی دوسرے ملک، مذہب یا عقیدے کا سایہ برداشت نہیں کرتا۔ کرسمس کے معاملے میں بھی چین کی یہی پالیسی ہے۔ اس کے باوجود ہر سال کرسمس کے قریب چین میں اس کی تھوڑی بہت رونق نظر آ ہی جاتی ہے۔ شاپنگ مالز کرسمس کی روایتی سجاوٹ سے سج جاتے ہیں۔ فینسی ریسٹورینٹ کرسمس کے لیے خاص مینیو ترتیب دیتے ہیں جن کی فی کس قیمت 40 ہزار پاکستانی روپے سے زائد بھی ہوسکتی ہے۔ بہت سے ریسٹورینٹ اور بارز میں کرسمس نائٹ بھی منائی جاتی ہے۔ تاہم، سرکاری میڈیا کرسمس کو کور نہیں کرتا۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کرسمس پر استعمال ہونے والا 80 فیصد سامان اسی شہر میں تیار ہوتا ہے
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کرسمس پر استعمال ہونے والا 80 فیصد سامان اسی شہر میں تیار ہوتا ہے

2 سال قبل ہم سال 2020ء کو خوش آمدید کہنے اپنے دوستوں کے ساتھ بیجنگ کے مرکز میں گئے تھے۔ 11 بجے پولیس علاقے میں پھیلنے لگی اور ساڑھے 11 کے قریب لوگوں کو عمارتوں سے باہر جمع ہونے سے روکنے لگی۔ ہمارے ایک دوست کو اسی وقت نازک صورتحال کا سامنا ہوگیا۔ وہ اپنا پیٹ پکڑے دوہرا ہوگیا اور ہوتا ہی چلا گیا۔ پاس ہی ایک اسٹار بکس کیفے تھا۔ اس نے وہاں جانا چاہا تو ایک پولیس والے نے اسے وہاں جانے سے بھی روک دیا۔ پھر مجبوراً اسے ایک کلب میں جاکر اپنی ضرورت پوری کرنی پڑی۔ چین میں مغربی تہواروں پر اس قسم کا کریک ڈاؤن عام نظر آتا ہے۔

کرسمس کا سجاوٹی سامان
کرسمس کا سجاوٹی سامان

چین کے لیے اس کا سب سے بڑا تہوار اسپرنگ فیسٹول ہے جو چینی نئے قمری سال کی خوشی میں مناتے ہیں۔ اسی موقع پر انہیں سالانہ چھٹیاں بھی ہوتی ہیں۔

چین کا نیا قمری سال فروری سے شروع ہوتا ہے۔ ان دنوں چین میں جو رونق ہوتی ہے وہ سال میں پھر کبھی نظر نہیں آتی۔ چینی اس موقعے پر اپنے گھروں کو بالکل اسی طرح نئے قمری سال کی سجاوٹوں سے سجاتے ہیں جس طرح مغرب میں لوگ کرسمس پر اپنے گھروں کو اس کی سجاوٹوں سے سجاتے ہیں۔

چینی اس موقعے پر اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے لیے پُرتکلف دعوت کا انتظام کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو پیسوں سے بھرے ہوئے سرخ لفافے اور عزیزوں کو سرخ ڈبوں میں بند تحائف دیتے ہیں۔ کرسمس پر یہ رونق دیکھنے کو نہیں ملتی۔

لیکن چینیوں نے کرسمس پر اپنا ہی ایک رواج بنایا ہوا ہے۔ وہ کرسمس پر ایک دوسرے کو سیب تحفے میں دیتے ہیں۔ ہمیں بھی ہماری ایک دوست کی طرف سے ایک سیب موصول ہوا ہے۔ ہم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سیب کو چینی زبان میں پِنگ گوا کہا جاتا ہے اور کرسمس سے پہلی شام کو پِنگ اَن یی کہا جاتا ہے جس کا مطلب امن کی رات ہے۔ دونوں الفاظ میں پِنگ کی شراکت کی وجہ سے چینی سیب کو امن کا پھل سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیں سیب تحفے میں دے رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس سے ہمارا آنے والا سال امن اور سلامتی کا سال ہوگا۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے لیے کرسمس کے لوازمات تیار کرنے والے خود کرسمس نہیں مناتے
مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے لیے کرسمس کے لوازمات تیار کرنے والے خود کرسمس نہیں مناتے

چین میں دیگر ممالک سے آنے والے افراد کرسمس کے موقعے پر اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جایا کرتے تھے مگر کورونا کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے۔

جو کورونا سے پہلے یا بعد میں چین سے باہر گئے تھے ان کے فی الحال واپس آنے پر پابندی عائد ہے۔ جو چین میں موجود ہیں وہ یہاں سے جا تو سکتے ہیں لیکن جانے کے بعد یہاں واپس نہیں آسکتے، اس لیے کوئی بھی اتنا بڑا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ اس سال کرسمس یہیں منائیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے گھروں اور بارز میں نجی محفلوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ ہمیں بھی کچھ محفلوں میں شرکت کے پیغام موصول ہوئے ہیں لیکن ہمارا ارادہ کرسمس پر بیجینگ کا ایک قدیم گرجا گھر دیکھنے کا ہے۔

ہم کرسمس پر گرجا گھر کی سیر کریں گے اور وہاں سجے کرسمس ٹری کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے بونوں کی اس فوج کا شکریہ ادا کریں گے جن کی وجہ سے دنیا کرسمس کی خوشیاں دیکھ پاتی ہے۔


تصاویر لکھاری


تبصرے (1) بند ہیں

Salazar Jan 04, 2022 04:33pm
Agli qist ka intezaar hai... Girja ghar ki achi tasaweer laga-ye ga please.