افغانستان میں امداد کی فراہمی کے لیے امریکا کی پیش کردہ قرارداد تمام ممبران ممالک نے متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔ اس کے بعد افغانستان کو امداد کی فراہمی کا راستہ کھل گیا ہے۔ امریکی وزارتِ خزانہ نے خود بھی امداد کی فراہمی کے لیے اضافی اقدامات کیے ہیں، یوں طالبان پر پابندی برقرار رہنے کے باوجود افغان عوام کو امداد فراہمی کا ایک راستہ کُھل گیا ہے۔

افغان طالبان پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکا نے الگ سے بھی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے سب سے زیادہ 103 جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے کم 24 اقتصادی پابندیاں عائد کیں، یہ ساری پابندیاں طالبان پر اب تک عائد ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سلامتی کونسل میں نئی قرارداد کے باوجود طالبان پر پابندیوں میں نرمی نہیں ہوئی۔

سلامتی کونسل کی پابندیاں عالمی قانون کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کوئی بھی ملک یا ادارہ افغانستان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ اکثر افغان محکموں کے سربراہ اور وزرا ان پابندیوں کی زد میں ہیں۔

امریکا نے ستمبر 2021ء میں کچھ پابندیوں میں نرمی کی تاکہ افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچائی جاسکے۔ امداد پہنچانے کی شرائط واضح نہیں تھیں اس لیے کوئی بھی ملک یا ادارہ واضح امدادی سرگرمی کرتا دکھائی نہ دیا۔

اس سب کی تفصیل آپ بی بی سی پر دیکھ سکتے ہیں۔

امریکا نے طالبان کے 9 ارب ڈالر سے زائد رقم بھی فریز کر رکھی ہے۔ اس منجمد رقم سے 7 ارب ڈالر اب عدالتی کارروائی سے بھی منسلک ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 11 ستمبر کے متاثرین نے اسی رقم سے زرِ تلافی کے لیے رٹ بھی کردی ہے۔ اب امریکی انتظامیہ چاہے بھی تو عدالتی کارروائی کی وجہ سے مجبور رہے گی۔

سلامتی کونسل میں جو قرارداد منظور ہوئی ہے اس کو چین روسی مدد کے ساتھ بلاک کرتا آ رہا تھا۔ اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ چینی مؤقف ہے کہ ‘انسانی بنیادوں پر امداد غیر مشروط ہونی چاہیے۔ کیس ٹو کیس بنیاد پر استثنیٰ دینا ٹھیک نہیں ہے‘۔ اب چین کا مؤقف تسلیم کرلیا گیا ہے۔

چین نے اس قرارداد کو پہلی بار ہی بلاک کردیا تھا۔ تب امریکی اندازے کے مطابق چین اپنی سرمایہ کاری کو بھی استثنیٰ دلوانا چاہ رہا تھا تاکہ چین افغانستان میں اپنے کان کنی کے منصوبوں پر کام شروع کرسکے۔ ابتدائی طور پر چینی سفارتکاروں نے قرارداد کو بلاک کرنے کے لیے کئی قسم کی وضاحتیں دیں اور اپنا مؤقف بار بار تبدیل کیا۔ مگر پھر ایک چینی سفارتکار نے فارن پالیسی سے بات کرتے ہوئے واضح کردیا کہ چین ایسا ہرگز اپنی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی وجہ سے نہیں کررہا ہے۔

یہ وہ پس منظر تھا جس میں سعودی کوشش اور خواہش پر اسلام آباد میں او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ طالبان کے نامزد وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘سب کو یہ ماننا چاہیے کہ افغانستان کی سیاسی تنہائی کسی کے کام کی نہیں۔ افغانستان کو سیاسی اور معاشی مدد درکار ہے، ہم ساری دنیا اور اسلامی ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، منشیات کی کاشت اور ترسیل کو ہم سختی سے روکیں گے‘۔

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیرمعمولی اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں منعقد ہوا— فوٹو: اے ایف پی
اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیرمعمولی اجلاس اتوار کو اسلام آباد میں منعقد ہوا— فوٹو: اے ایف پی

امیر خان متقی نے اس موقعے پر اصرار کیا کہ ‘ہمارا حق ہے کہ ہمیں تسلیم کیا جائے۔ ہم ہر عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ امریکی پابندیاں ہمارے ساتھ زیادتی اور پوری افغان قوم کے ساتھ دشمنی ہے‘۔

متقی کو او آئی سی کی وزرائے خارجہ اجلاس کی آفیشل فوٹو میں بھی شریک نہیں کیا گیا۔ تصویر تک اکٹھے نہ کھچوانے کی یہ احتیاط معاملے کی نذاکت بیان کرتی ہے کہ افغان طالبان پر پابندیوں کی نوعیت کیسی سخت ہے۔

او آئی سی اجلاس کے اعلامیہ میں بتایا گیا کہ اسلامی ترقیاتی بینک 2022ء کی پہلی سہ ماہی سے امدادی کوششوں کا آغاز کرے گا۔ ایک بینک اکاؤنٹ قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے افغانستان کو امداد فراہم کی جاسکے گی۔ اس موقعے پر افغان حکومت کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ‘عالمی انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں، بزرگوں اور ضرورت مند افراد کی ضروریات کا بھی خیال کرے‘۔

طالبان کے نامزد وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں—اے ایف پی
طالبان کے نامزد وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں—اے ایف پی

او آئی سی اجلاس جب اسلام آباد میں جاری تھا عین اسی لمحے دہلی میں 5 سینٹرل ایشین ممالک کے وزرائے خارجہ ریجنل کنیکٹویٹی تعاون ٹریڈ اور افغانستان پر بات کرنے پہنچے تھے۔ ان 5 اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ او آئی سی اجلاس کے لیے اسلام آباد نہیں آئے۔ بھارتی میڈیا نے او آئی سی اجلاس کے موقعے پر 5 وسط ایشیائی ریاستوں کے اسلام آباد آنے کے بجائے دہلی پہنچنے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ سینٹرل ایشیا کے اس 5 ملکی اتحاد کو کارز یعنی سینٹرل ایشین ریپبلکس کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

اس اجلاس میں افغانستان میں سب کی شمولیت والی یعنی آل انکلوسیو حکومت، منشیات، دہشتگردی اور حالات خراب ہونے کی صورت میں افغان مہاجرین کی آمد اور بھارت کے ان ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات پر غور کیا گیا۔ افغانستان کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد دینے کا بھی کہا گیا۔

عرب نیوز نے او آئی سی اجلاس کے موقعے پر ترکی اور قطر کی مشترکہ خواہش اور کوشش پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ دونوں ملک افغانستان کے 5 ایئر پورٹ کا مشترکہ انتظام سنبھالنا چاہ رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب پاکستان کو ساتھ ملا کر افغانستان میں اپنا اثر بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں دہلی میں افغانستان کے مسئلے پر منعقد ہونے والے اس 5 ملکی اجلاس کا ایجنڈا بھی افغانستان کے گرد ہی گھومتا تھا۔ یہ پاکستان کے لیے تو ایک چیلنج تھا ہی مگر اب سعودیوں کے لیے بھی چیلنج بن گیا ہے۔

لیکن دہلی سے جو اصل چیلنج سامنے آیا ہے وہ کچھ اور ہے۔ دی پرنٹ انڈیا میں ایک مضمون چھپا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ’پاکستان جناتی انا رکھنے والا ایک دیوالیہ ملک ہے‘۔ دیوالیہ لکھتے ہوئے حوالہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا دیا گیا ہے۔ یہ طنز بھی کیا گیا ہے کہ ’دیوالیہ پاکستان نے ایک پورا ملک [افغانستان] 'جیتا' ہے۔ اس پر سرمایہ کاری کی ہوگی تو دیوالیہ ہونا بنتا ہے‘۔

یہ سب لکھنے کے بعد کہا گیا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان دیا کہ ’سعودیہ میں کام کرنے والے 4 لاکھ پاکستانی کورونا کی وجہ سے پاکستان بیٹھے ہیں کیونکہ سعودی عرب نے سفری پابندیاں لگا رکھی ہیں‘۔ رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ جب بارڈر بند تھا، پاکستانی گھر بیٹھے تھے اور سعودی عرب پاکستان کو سخت شرائط پر قرض دے رہے ہیں تو پھر بیرون ملک سے آنے والی سب سے زیادہ رقوم تب بھی سعودیہ سے کیوں آرہی تھیں؟

مضمون کے مطابق صرف 2 ہی ملک تھے میکسیکو اور پاکستان جہاں کورونا اور دنیا کی بیٹھتی معیشت کے باوجود باہر سے آنے والی رقم میں اضافہ ہوا۔ یہ سب لکھ کر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا باقاعدہ دھیان دلوایا گیا کہ ٹیرر فائنانسنگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ پاکستان کی کمائی کے ذرائع دستاویزی معیشت سے باہر بھی موجود ہیں۔ سعودیہ میں کام کرنے والے پاکستانی بیروزگار ہوئے اور پاکستان بیٹھے تھے تو سعودی عرب سے ہی پاکستان کو ڈالر کیسے آرہے تھے؟ سعودی عرب سے آنے والی ترسیلات میں تب 28 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

یہ مضمون جیسا بھی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان موجود تعلق بھی بتاتا ہے اور ہماری مشکلات بھی ہمیں سمجھاتا ہے وہ بھی شریکوں کی زبان سے، جو ان ترسلیات کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فائنانسگ سے اس مضمون میں جوڑ رہے ہیں۔

ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کی مدد کو آنے والے سعودی عرب خود مشکلات کا شکار نہ ہوجائے۔ وہ بھی ایسے حالات میں کہ نئی امریکی قرارداد کی منظوری کے باوجود افغان طالبان پر پابندیاں برقرار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (10) بند ہیں

وحید Dec 24, 2021 11:31am
ہمیشہ کی طرح منفرد اور دلچسپ تجزیہ ۔
ریاض Dec 24, 2021 11:41am
ہمیشہ کی طرح وسی بابا کا یہ مضمون بھی معلوماتی ہے کچھ بہترین تجزیاتی جملے بھی لکھے گئے ہیں
فیصل Dec 24, 2021 11:41am
کیا ہی خوبصورتی سے بیان کئے حالات حاضرہ
Asif mahmood Dec 24, 2021 12:35pm
شاندار تحریر
اعجاز بلوچ Dec 24, 2021 12:54pm
عمدہ لکھا ہے
عاصم جاوید Dec 24, 2021 01:38pm
کمال۔۔۔۔جیتے رہیے
Ghulam Farid Dec 24, 2021 02:45pm
پاکستانی اداروں کو ایسا نہیں چاہیے تھا کہ افغانستان پر اپنی من چاہی حکومت مسلط کی ۔ اب ان کو تسلیم کروانا ان اداروں کا درد سر بن گیا۔ اداروں کا یہی خیال تھا کہ جس طرح ضیاء اور میں فنڈز ملے پھر مشرف نے نچھوڑا۔ اب اس زاوئے سے نچھوڑیں گیں۔ لیکن اب کی بار حالات یکسر مختلف ہیں۔ اب ہر ملک اپنی مفادات دیکھ کر کارڈ چلا رہیں ہیں۔ اور اس کا ازالہ افغان عوام بھگت رہیں ہیں۔
Peer Syed Mudassir Shah Dec 24, 2021 02:59pm
مجھے انڈیا کے S400 پر خریداری اور تنصیب پر آپکی رائے کا انتظار ہے
عمار علوی Dec 24, 2021 03:23pm
بہترين تجزیہ۔ مگر میرے خیال میں انڈیا کی جانب سے سعودیہ پر فیٹف اور دیگر اداروں کی توجہ ڈلوانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی ہمت ۔
عامر گمریانی Dec 24, 2021 03:53pm
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا