اسلام آباد: گزشتہ روز پارلیمانی کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے اجلاس میں یہ بات سامے آئی کہ جون سے ستمبر کے دوران فرٹیلائزر پلانٹس کو گیس کی فراہمی میں پڑنے والے خلل سے 2 لاکھ ٹن یوریا کی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقتصادی تعاون کمیٹی کے فیصلے کے مطابق یوریا پلانٹس کو مارچ سے نومبر تک کام کرنا تھا تاہم یہ پلانٹس 28 جون سے 16 ستمبر تک بند رہے جس سے یوریا کی پیداوار میں 2 لاکھ ٹن کمی واقع ہوئی۔

کمیٹی کے چیئرمین سید مظفر حسین شاہ نے سوال کیا کہ ’یوریا پلاٹس کی بندش کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں، اس کے ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں کیا گیا؟ اس حوالے سے وزارت پیٹرولیم سے جواب کیوں نہیں طلب کیا گیا‘؟

مزید پڑھیے: یوریا کا ذخیرہ ملکی ضروریات کے لیے کافی ہے، حکومت کی کسانوں کو یقین دہانی

کمیٹی کے مطابق اس کوتاہی کے نتیجے میں یوریا کی ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں اضافہ اور مصنوعی قلت پیدا ہوگی، کمیٹی نے یہ جاننے پر اصرار کیا کہ جون اور ستمبر کے درمیان یوریا پلانٹس کو بند رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ تاہم وزارت برائے قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کا جواب تھا کہ کسی پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی۔

کمیٹی کے چیئرمین سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ ’کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اس بات کی انکوائری کی جائے کہ اقتصادی تعاون کمیٹی کے فیصلے کے باوجود یوریا کے پلانٹس کیوں بند کیے گئے جس کے نتیجے میں زرعی شعبے میں شدید بحران پیدا ہوا اور یوریا کی قیمتوں میں اضافہ اور یوریا کی قلت کے علاوہ گندم کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوئے‘۔

کمیٹی کو وزارت غذای تحفظ کی جانب سے بتایا گیا کہ گیس کی قلت کے معاملے کئی فرمز پر اٹھایا گیا تاکہ یوریا پلانٹس کو گیس کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔

اس بات کی بھی شکایت کی گئی کہ یوریا کی قلت کے باعث کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے، کمیٹی کے کئی ممبران نے اپنے علاقوں میں یوریا اور گندم کی عدم دستیابی کی شکایت کی۔

تاہم متعلقہ وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بھارت سمیت دنیا بھر میں یوریا کی قلت تھی، چین اور روس نے بھی یوریا کی برآمد بند کردی تھی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگر گیس کی قلت نہ ہوتی تو پاکستان یوریا کی پیداوار میں خود کفیل تھا۔

مزید پڑھیے: یوریا کی قلت اور اضافی قیمتوں سے سندھ میں گندم کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ

متعلقہ وزارت کے حکام کے مطابق وزیراعظم نے اس معاملے پر دو اجلاسوں کی صدارت کی اور صنعت کو گیس کی بلاتعطل فراہمی کی ہدایت کی، پلانٹس کو فراہم ہونے والی گیس کے پریشر میں کچھ تکنیکی پیچیدگیاں بھی موجود تھیں۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے راستے افغانستان میں یوریا کی اسمگلنگ کے حوالے سے جواب میں متعلقہ وزارت کے حکام نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یوریا کو پاکستان سے باہر اسمگل ہونے سے روکنے کے لیے سرحدوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوریا پلانٹس کو گیس کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ مستقبل میں قلت سے بچا جا سکے۔


یہ خبر 31 دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں