لاہور: پنجاب پولیس نے 10 کروڑ روپے تاوان کے لیے شیر خوار بچے کو اغوا کرنے کے غیر معمولی واقعے میں جنوبی افریقی پولیس سے رابطہ کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس کو خوشاب سے پاکستانی بزنس مین عبدالرحمٰن کے 14 ماہ کے بیٹے محمد جمیل کے اغوا میں جنوبی افریقی گینگ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ عبدالرحمٰن گزشتہ 15 سال سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں اور دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

جنوبی افریقی پولیس نے افریقی گینگ کے خلاف تحقیقات کے حوالے سے پنجاب پولیس کی درخواست پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، خوشاب پولیس نے گھر میں ڈکیتی کے دوران بچے کے اغوا کے 42 گھنٹوں بعد ہی چوری کیے گئے ایک فون کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگایا اور انہیں گرفتار کرلیا۔

موبائل فون کی مدد سے ہی پولیس اٹک کے ایک دور دراز علاقے میں موجود کرائے کے گھر تک پہنچی جہاں بچے کو تاوان کے حصول کے لیے رکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: سال 2021 کے دوران لاہور میں جرائم کے واقعات میں 57 فیصد اضافہ

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پولیس سردار علی خان اس معاملے پر پولیس سے مسلسل رابطے میں رہے اور بچے کی باحفاظت واپسی پر پولیس کی تعریف بھی کی۔

خوشاب کے ضلعی پولیس افسر محمد نوید نے ڈان کو بتایا کہ شیر خوار بچے کے اغوا میں جنوبی افریقی گینگ ملوث ہے، انہوں نے کہا کہ عبد الرحمٰن کا خاندان خوشاب کے ہدلی گاؤں میں رہائش پذیر ہے جہاں کے کئی دیگر افراد اور خاندان بھی جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عبد الرحمٰن خود جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں جبکہ ان کی اہلیہ، 3 بیٹیاں اور شیر خوار بیٹا گاؤں میں رہتے ہیں۔

30 دسمبر کی رات کو 4 مسلح افراد عبد الرحمٰن کے گھر میں داخل ہوئے اور گھر والوں کو یرغمال بنا کر نقدی، موبائل فون اور 25 تولہ سونا لوٹ لیا، مسلح افراد گھر کا سامان لوٹ کے فرار ہوئے تو گھر والوں کو شیر خوار بچے کی گمشدگی کا احساس ہوا۔

عبد الرحمٰن کی اہلیہ نے بچے کو گھر میں تلاش کیا تاہم ناکامی کے بعد انہوں نے پولیس کو مطلع کیا، محمد نوید کے مطابق پولیس کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا کہ ڈاکو بچے کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

تاہم گھر والوں کا شک اس وقت درست ثابت ہوا جب عبد الرحمٰن کو جنوبی افریقہ میں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں اغوا کاروں نے بچے کی باحفاظت واپسی کے لیے 10 کروڑ روپے طلب کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ گینگ نے عبد الرحمٰن سے جنوبی افریقہ نمبر سے رابطہ کیا جو کہ خوشاب پولیس کے لیے تشویش کی بات تھی، ان کے مطابق خوشاب پولیس نے آئی جی پولیس کو اس اغوا میں مبینہ طور پر غیر ملکی گینگ کے ملوث ہونے کے بارے میں آگاہ کیا۔

مزید پڑھیے: دفتر سے 'مغوی' بازیاب کرانے پر ڈائریکٹر جنرل ایکسائز کا پولیس پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام

محمد نوید کے مطابق معاملے پر غور کے بعد آئی جی پولیس نے اس معاملے پر انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) سے رابطہ کیا جس کے بعد خوشاب پولیس اور آئی بی کی مشترکہ ٹیم لوٹے گئے موبائل فون سے اغوا کاروں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوگئی۔

محمد نوید کے مطابق اغوا کاروں نے سم کو موبائل فون سے نکال کر دوسرے فون میں لگایا تھا تاہم آئی بی کی جانب سے اس فون پر نظر رکھی جاتی رہی جس کی وجہ سے پہلے اسے راولپنڈی اور پھر اٹک میں دیکھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 42 گھنٹوں کی ’انتھک کوششوں کے بعد پولیس اس مقام پر پہنچی اور ایک کرائے کے گھر سے دو ملزمان کو حراست میں لے لیا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے بچے کو بھی بازیاب کروایا جسے اغوا کاروں نے گھر کے ایک حصے میں رکھا ہوا تھا، مقدمے میں تحقیقات کے بعد خوشاب پولیس نے جنوبی افریقی پولیس سے رابطہ کرکے انہیں تفصیلات فراہم کیں اور ان سے عبد الرحمٰن کو فون کرنے والے افراد کا ریکارڈ طلب کیا۔

ضلعی پولیس افسر محمد نوید نے کہا کہ تحقیقات کو کسی انجام تک پہنچانے کے لیے جنوبی افریقی پولیس کی تفتیش ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں