سانحہ مری: محکمہ موسمیات کے شدید برفباری کے انتباہ پر توجہ نہیں دی گئی

09 جنوری 2022
محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا تھا کہ  6 جنوری سے 9 جنوری کی سہ پہر تک سڑکیں بند ہوسکتی ہیں—تصویر: اے ایف پی
محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا تھا کہ 6 جنوری سے 9 جنوری کی سہ پہر تک سڑکیں بند ہوسکتی ہیں—تصویر: اے ایف پی

مری میں 22 افراد کی اموات کا سبب بننے والی صورتحال سے چند روز قبل شدید برف باری کا انتباہ جاری کیا گیا تھا، اس کے باوجود نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکمے پیشگی اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این ڈی ایم اے کی جانب سے دیگر محکموں اور راولپنڈی، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ پہاڑی علاقے میں ٹریفک اور رہائش کے مسائل پر بات کرنے کے لیے کوئی پیشگی اجلاس نہیں بلایا گیا۔

محکمہ موسمیات نے 5 جنوری کو الرٹ جاری کیا تھا کہ شدید برف باری کے باعث مری، گلیات، نتھیاگلی، کاغان، ناران اور دیگر علاقوں میں 6 جنوری سے 9 جنوری کی سہ پہر تک سڑکیں بند ہوسکتی ہیں۔

محکمہ موسمیات نے کہا تھا کہ ’تمام متعلقہ حکام کو خاص طور پر پیش گوئی کی مدت کے دوران 'الرٹ' رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: مری آفت زدہ قرار، ایمرجنسی نافذ، پاک فوج کے جوان مدد کیلئے پہنچ گئے

خیال رہے کہ 5 جنوری (بدھ) کو مری میں 6.5 انچ برف باری ہوئی، جس کے بعد اگلے روز 8.5 انچ جبکہ 7 جنوری (جمعہ) کی صبح سے ہفتہ کی صبح تک 16.5 انچ برف باری ریکارڈ کی گئی۔

محکمہ موسمیات کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مری کے لیے یہ معمول کی برف باری ہے۔

محمکمہ موسمیات کی جانب سے یہ الرٹس اور معلومات ویب سائٹ پوسٹ کرنے کے علاوہ براہ راست بڑی تعداد میں سرکاری محکموں کو بھیجی جاتی ہیں۔

اگرچہ محکمہ موسمیات کے الرٹ کے فوراً بعد 5 جنوری کو تحصیل مری کی انتظامیہ نے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کی جس میں مشورہ دیا گیا کہ سیاحوں کو پہاڑی مقام پر جانے سے پہلے موسم کی تازہ ترین معلومات اور ٹریفک سے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔

چونکہ مری ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے اس لیے ڈپٹی کمشنر نے زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے کوئی ہنگامی اجلاس نہیں بلایا۔

مزید پڑھیں: مری انتظامیہ تیار نہ تھی، وزیر اعظم کا سانحے کی تحقیقات کا حکم

تاہم راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر محمد علی نے سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ سیاحوں کی سہولت اور ٹریفک کی روانی کو منظم کرنے کے لیے تمام اہم مقامات پر انسپکٹرز کی نگرانی میں ٹریفک وارڈنز کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کردیا گیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بہارہ کہو کے بعد ٹول پلازہ پر سیاحوں کا داخلہ کیوں نہیں روکا گیا تو انہوں نے کہا کہ جمعہ کی شام 6 بجے کے بعد تحصیل مری کے تمام انٹری پوائنٹس کو بند کر دیا گیا تھا لیکن اس سے ایک اور افراتفری پیدا ہوگئی تھی کیونکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔

دوسری جانب این ڈی ایم اے کی راولپنڈی اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں کے دوران صرف جڑواں شہروں میں اربن فلڈنگ پر بات ہوئی۔

اس ضمن میں پنجاب حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ممکن ہے کہ این ڈی ایم اے مری میں ہونے والی تباہی کا اندازہ نہ لگاسکی ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں: مری: برفباری میں پھنسے ایک ہی خاندان کے 8 افراد سمیت 22 سیاح جاں بحق

جب مری میں پھنسے ہوئے لوگوں کے محفوظ انخلا کے لیے امدادی اور بچاؤ کی کوششیں جاری تھیں تو این ڈی ایم اے نے متعلقہ اداروں بشمول فوج، ریسکیو 1122، راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ پولیس کے ساتھ اشتراک کیا۔

الیکٹرانک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی مدد سے تمام تجارتی مقامات بشمول ریستورانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اضافی لوگوں کی رہائش کے انتظامات کریں، یہاں تک کہ مقامی لوگوں سے بھی کہا گیا کہ جہاں تک ممکن ہو پھنسے ہوئے سیاحوں ٹھہرائیں‘۔

جس کے بعد بہت سے مقامی ہوٹلوں نے مدد کی پیشکش کی اور ایک ہوٹل نے پھنسے ہوئے سیاحوں کو مفت کھانا فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں