مسلم لیگ (ن) نے اسٹیٹ بینک قانون سے متعلق اختلافی نوٹ جمع کرادیا

12 جنوری 2022
احسن اقبال نے کہا ہے اسٹیٹ بینک مجوزہ ترمیمی بل پاکستان کی مالی خودمختاری پر دور رس سنجیدہ اثرات رکھتا ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
احسن اقبال نے کہا ہے اسٹیٹ بینک مجوزہ ترمیمی بل پاکستان کی مالی خودمختاری پر دور رس سنجیدہ اثرات رکھتا ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کو اس کے ملک کی خود مختاری پر ہونے والے سنجیدہ اثرات کے باوجود تفصیلی بحث کرائے بغیر منظوری کے لیے جلد بازی میں پیش کرنے پر اپنا اختلافی نوٹ جمع کرا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹٰی کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کہا ہے کہ انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں کچھ نکات کی نشاندہی کی تھی جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت تھی، لیکن حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے کردہ وقت میں بل کو منظور کرانے کے لیے جلد بازی میں ان نکات کو نظر انداز کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیمی بل پاکستان کی مالی خود مختاری پر دور رس اور سنجیدہ اثرات رکھتا ہے۔

لیگی رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مجوزہ بل پر عالمی مالیاتی فنڈز کے ساتھ مہینوں مذاکرات کیے، مگر قانون سازوں کو اس پر غور کے لیے ایک دن بھی نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کو ‘ہاٹ منی اسکینڈل’ کی تحقیقات سےبچانے کیلئے خود مختاری دی جارہی ہے، احسن اقبال

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی ایک خود مختار ادارہ ہے اور وہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے کیے گئے کسی معاہدے کی پابند نہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کو مالیاتی پالیسی پر خود مختار ہونا چاہیے لیکن اس کو ریاست کے اندر ایک متوازی سلطنت نہیں بنانا چاہیے۔

احسن اقبال نے کہا کہ مجوزہ قانون میں تصور کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک، کم اور مستحکم افراط زر کو حکومت کی جانب سے طے کیے گئے درمیانی مدت کے افراط زر کے اہداف کو بنیادی مقصد کے طور پر برقرار رکھے گا لیکن مستحکم قیمت کی اصطلاح، کم اور مستحکم مہنگائی اور درمیانی مدت کی وضاحت نہیں کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب اسٹیٹ بینک اپنے کے لیے افراط زر کا کوئی ہدف مقرر نہیں کرتا، جو کہ اس کی قانونی ضرورت ہے، تو پھر اس کی کارکردگی جانچنے کے لیے پیمانے میں کوئی وضاحت نہیں ہوگی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو یعنی گورنر کا عہدہ الگ الگ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: گورنر اسٹیٹ بینک کو وزیراعظم سے زیادہ بااختیار بنا دیا گیا ہے، احسن اقبال

انہوں نے کہا کہ بل نے حکومت کو کسی ہنگامی صورتحال کے دوران قرض لینے سے روک دیا ہے جس سے حکومتیں کمرشل بینکوں کے رحم و کرم ہوں گی کہ وہ خزانے پر بلند شرح سود نافذ کریں جس سے حکومت کے آفات کے دوران آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہاتھ بندھ جائیں گے۔

یہ شرط مرکزی بینک کو اس کے عالمی سطح پر منظور شدہ اس بنیادی کردار سے روک دیتی ہے جو کہ اس کا آخری قرض دہندہ کے طور پر ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے مزید کہا کہ امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنا گورنر کا نہیں بلکہ حکومت یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اختیار ہونا چاہیے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ گورنر اور ڈپٹی گورنرز کی نوکری کی شرائط و ضوابط، تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین حکومت کی جانب سے ہونا چاہیے اور اسٹیٹ بینک کو یہ اختیار نہیں دینا چاہیے کہ وہ اپنے لیے اپنے طور پر مارکیٹ بیسڈ مراعات طے کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مضحکہ خیز ہے کہ اسٹیٹ بینک، ان شیڈول بینکوں کے لیے آخری قرض دہندہ رہے گا جن کی نگرانی اس کا مینڈیٹ ہے کہ بینکاری نظام کو صحت مند طریقے سے چلائے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک سے متعلق ترمیم آئی ایم ایف سے منسلک نہیں، فروغ نسیم

انہوں نے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ کسی بھی بل جس میں اس کے کام سے متعلق کوئی بات ہو اس کو حکومت یا پارلیمنٹ کی جانب سے پیش کرنے سے قبل اسٹیٹ بینک سے مشاورت نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسٹیک ہولڈر کے طور پر مشاورت کے لیے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کرنا چاہیے۔

احسن اقبال نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا منافع جو کہ اس اس وقت بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو ہے، لیکن مجوزہ قانون کے تحت اس کے منافع کو نان ٹیکس ریونیو سے نکالنا آئندہ آنے والی حکومتوں کے لیے بہت بڑا خلا ہوگا، اگر ریاست اور عوام اسٹیٹ بینک کے منافع سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو کون فائدہ اٹھائے گا؟

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کی کارکردگی جانچنے کے پیمانے اور اسٹیٹ بینک کو اپنے شیئر ہولڈرز یعنی ریاست پاکستان کو جواب دینے کا پابند بنائے بغیر اس قدر خود مختاری دینا ناقابل فہم ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں