حکومت کی منظوری کے بغیر پاک بحریہ مقدمہ دائر نہیں کرسکتی، عدالت

14 جنوری 2022
جسٹس میاں گل اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ مسلح افواج قانونی افراد نہیں ہیں—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
جسٹس میاں گل اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ مسلح افواج قانونی افراد نہیں ہیں—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

پاک بحریہ کی جانب سے دارالحکومت اسلام آباد میں نیول فارمز، سیلنگ اور گالف کلبز کے خلاف حالیہ فیصلوں کو چیلنج کرنے والی اپیلوں پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ فوج کی ایک شاخ 'قانونی فرد' نہیں ہے۔

لہٰذا اس کی جانب سے کوئی بھی شروع کی گئی کسی بھی قانونی کارروائی کا وفاقی حکومت سے منظور ہونا ضروری ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حالیہ فیصلوں کے خلاف دائر تین ایک جیسی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔

مذکورہ فیصلے میں عدالت نے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پاک بحریہ کا سیلنگ کلب گرانے اور فارم ہاؤسز اور گولف کورس قبضے میں لینے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ: مونال ریسٹورنٹ سیل، سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم

7 جنوری کو سنائے گئے فیصلے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ 'پاکستان کی مسلح افواج کے مینڈیٹ کو آئین کے حصہ 12 کے باب 2 میں بیان کیا گیا ہے۔

مسلح افواج کی تین اہم شاخیں پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ ہیں، آئین کی دفعہ 243 میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کا کنٹرول اور کمان وفاقی حکومت کے پاس ہوگی۔

چنانچہ گزشتہ روز جب پاک بحریہ کے وکیل نے اپنے دلائل پیش کرنے کی کوشش کی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے ان اپیلوں کو منظور کیا ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ اپیلیں نیول حکام کی جانب سے دائر کی گئی تھیں اور انہوں نے ضروری محکمانہ منظوری دے دی تھی۔

جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آئینی طریقہ کار کے مطابق ان اپیلوں کی منظوری صرف وفاقی حکومت ہی دے سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر تعمیرات پر پابندی عائد کردی

اس کے بعد وکیل نے عدالت سے درخواستوں میں ترمیم کرنے اور سیکریٹری دفاع کے ذریعے دوبارہ دائر کرنے کی اجازت مانگی۔

جسٹس اورنگزیب نے بحریہ کے وکیل سے کہا کہ ’آپ کو رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد نئی درخواستیں دائر کرنے کی ضرورت ہے'۔

بینچ نے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ کیا پاک بحریہ ایک قانونی فرد ہے، غیر انسانی قانونی ادارہ جو کوئی فرد نہیں بلکہ قانون کے ذریعہ تسلیم شدہ تنظیم ہے۔

جسٹس میاں گل اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ 'مسلح افواج' قانونی افراد نہیں ہیں، نہ بحریہ قانونی فرد ہے اور نہ ہی وہ پٹیشن دائر کرنے کی مجاز ہے'۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود سے بھی وضاحت طلب کی کہ کیا بحریہ سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر سکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا نجی ہوٹل کو آج ہی سیل کرنےکا حکم

جس پر قاسم ودود نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ وزارت سے اجازت لینے کے بعد اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

45 صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ شدہ اراضی پر نیوی سیلنگ کلب اور فارم ہاؤسز کی تعمیر کو غیر مجاز قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے کو فارم ہاؤسز کو قبضے میں لینے اور سیلنگ کلب کو مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اسے تقدیر کی ستم ظریفی قرار دیا تھا کہ 'چیف آف نیول اسٹاف اور مسلح افواج کی شاخوں میں سے ایک یعنی پاک بحریہ نافذ شدہ قوانین کی خلاف ورزی اور ملک کے سپریم قانون کے تحت مقرر کردہ مینڈیٹ سے تجاوز کرنے میں ملوث تھی'۔

انہوں نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ پریشان کن عنصر مسلح افواج کی ایک شاخ کا معاشرے اور اس کے شہریوں کے ساتھ پیدا کردہ تنازع تھا، ایسا کوئی بھی تنازع آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ناقابل برداشت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں