زبیدہ مصطفیٰ
زبیدہ مصطفیٰ

ملک میں خواتین کے حوالے سے ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے۔ ایک خاتون جج پہلی مرتبہ ایک اہم عہدے پر فائز ہونے والی ہیں۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے نامزد کیا ہے اور ان کی تقرری کا باضابطہ اعلان پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔

اس خبر سے مچنے والے تہلکے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی میں جب بھی کسی خاتون نے کسی بھی شعبے میں کوئی صنفی رکاوٹ عبور کی ہے تو اسی طرح تہلکہ مچا ہے۔ اس کی بہترین مثال 1988ء کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو کا سیاسی منظرنامے میں ابھرنا ہے۔

اس تناظر میں کچھ حلقوں میں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے۔ لوگ اس حالیہ فیصلے کو خواتین کی تکریم قرار دیتے ہوئے یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ عدلیہ میں مردوں یا خواتین کی موجودگی کس حد تک مؤثر ہوتی ہے؟ آخر ایک اچھا جج چاہے وہ مرد ہو یا عورت قانون اور انصاف کے دائرے میں ہی کسی مقدمے کا فیصلہ کرے گا۔

مزید پڑھیے:صنفی برابری: رویے تبدیل کرنے ہوں گے

لاہور ہائی کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس ناصرہ اقبال جو خود بھی ایک بہترین جج رہی ہیں، انہوں نے اس حوالے سے بالکل واضح مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت تنوع فروغ پارہا ہے اور اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے یہ کہنا چاہیے کہ تمام شعبوں میں صنفی تنوع کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ مرد و خواتین خواہ کتنے ہی ہم خیال کیوں نہ ہوں وہ مختلف معاملات کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں۔

تاہم میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ خواتین سے متعلق معاملات میں خواتین کے نقطہ نظر کو اہمیت دینی چاہیے۔ اس سے تمام معاملات پر ہونے والی بحث میں ایک توازن پیدا ہوگا۔ یہ بنیادی طور پر اس معاملے کی جڑ ہے جسے 1960ء کی دہائی میں تسلیم کیا گیا جب پاکستان میں کئی شعبوں میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہوئیں۔ عدلیہ جو خواتین کے لیے ایک اہم شعبہ ہے وہ خود کو تبدیل کرنے میں سست روی کا شکار رہا۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی قانون اپنے آپ میں صنفی امتیاز نہ کرتا ہو تاہم مختلف ججوں کی جانب سے اس کی مختلف تشریحات کی جاسکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی کا تعصب، مختلف حالات کی سمجھ اور ذاتی تجربات اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ججوں پر مشتمل بینچوں کے فیصلے اتفاق رائے سے نہیں آتے۔ کچھ ججوں کو فیصلے سے اختلاف ہوتا ہے تاہم اکثریتی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیے: نظام صحت میں موجود صنفی عدم مساوات

یوں عدلیہ میں خواتین کی خاطر خواہ نمائندگی نہ ہونے سے خواتین کا نقطہ نظر شامل نہیں ہوپاتا۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے جب یہ کہا کہ ایک عورت ہی جانتی ہے کہ دوسری عورت کے دل میں کیا ہے تو شاید ان کا یہی مطلب تھا۔

مردوں کا بھی اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ خواتین کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں حساس ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے جیسے پدرانہ معاشرے میں تمام مردوں کے لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ بہت سے مرد جج خواتین کے خلاف تعصب رکھتے ہیں جو اکثر مقدموں کی سماعت کے دوران ان کے تبصروں سے عیاں ہوتا ہے۔

تمام مرد ججوں پر مشتمل بینچ کی جانب سے مختاراں مائی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو یاد کیجیے۔ مختاراں مائی کو ان کے گاؤں کے مردوں پر مشتمل جرگے کے حکم پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد نے مجھے بتایا کہ انہیں 97ء-1996ء میں نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کا چیئرپرسن بننے سے قبل اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ خواتین مردوں سے مختلف نقطہ نظر رکھتی ہیں۔

اس کمیشن میں عاصمہ جہانگیر اور شہلا زاہد جیسی شخصیات بھی موجود تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرکے جسٹس ناصر اسلم زاہد کو معلوم ہوا کہ کس طرح خواتین ایک قانون کو مردوں سے مختلف انداز میں دیکھ سکتی ہیں۔ وہ وفاقی سیکریٹری قانون کے طور پر قانون سازی میں شامل رہے تھے تاہم پھر بھی وہ اس حوالے سے حساس نہیں تھے۔

مزید پڑھیے: معاشی خودکفالت، خواتین کے مسائل کا حل

یہ بات صرف عدلیہ کے لیے نہیں بلکہ ہر شعبے کے لیے صادق آتی ہے۔ جتنا زیادہ پدرانہ معاشرہ ہوگا عورت کا نقطہ نظر اتنا ہی زیادہ پوشیدہ رہے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے پیشے میں مردوں کو حساس بنانے پر بہت زور دیا جا رہا ہے جہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے نقطہ نظر کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے۔ اسی وجہ سے ہم نچلی عدالتوں، مجسٹریٹس، پولیس اہلکاروں، وکلا اور ارکانِ پارلیمنٹ کی صنفی تربیت کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔

اس سے زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ اگرچہ جسٹس ناصرہ اقبال نے ہر عدالت میں 5 خواتین ججوں کی تجویز دی ہے لیکن یہ تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ طاقتور عہدوں پر جب خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہوتی ہے تو وہ خواتین کی زیادہ مؤثر حمایت نہیں کرسکتیں۔

ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ خواتین کی اتنی تعداد ضرور موجود ہو کہ تبدیلی کا عمل بغیر کسی مزاحمت کے چلتا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تعداد 40 فیصد ہونی چاہیے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے اور اب تک اسکینڈینیوین ممالک میں کچھ شعبوں کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی اس ہدف کو حاصل نہیں کیا گیا۔ وہ اسکینڈینیوین ممالک ویسے بھی صنفی انصاف کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک خواتین اور بچوں کے حوالے سے مؤثر سماجی انصاف کو اپنا مقصد بنائیں تو وہ ایک مثال قائم کرسکتی ہیں۔


یہ مضمون 14 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Jan 18, 2022 09:46am
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔