حکومتِ سندھ کو جبری گمشدگیوں پر ٹاسک فورس تشکیل دینے کا حکم

20 جنوری 2022
عدالت نے کہا کہ  ٹاسک فورس میں ہر ضلع میں ڈی ایس پی کے عہدے سے کم درجے کا افسر نہ شامل ہو—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز
عدالت نے کہا کہ ٹاسک فورس میں ہر ضلع میں ڈی ایس پی کے عہدے سے کم درجے کا افسر نہ شامل ہو—فائل فوٹو: وکیمیڈیا کامنز

سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کے کیسز میں پولیس کی جمع کرائی گئی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکام کو جبری گمشدگی سے متعلق ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کی ہدایت کی جو اس قسم کے کیسز پر توجہ دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں رکنی بینچ نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائی جانے والی ٹاسک فورس میں ہر ضلع میں ڈی ایس پی کے عہدے سے کم درجے کا افسر نہ شامل ہو۔

عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کے کیسز میں بغیر کسی خاطر خواہ پیش رفت کے صرف دقیانوسی رپورٹیں جمع کرائی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کیس: وفاق کے سیکریٹری داخلہ کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

لاپتا افراد کے ٹھکانے سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پورے شہر کے سینیئر افسران ہائی کورٹ میں پورا دن موجود رہتے ہیں اور عموماً ایک ہی بیان 'کوشش کے باوجود لاپتا فرد کا کوئی سراغ نہیں ملا'' کے ساتھ معمول کی رپورٹس جمع کروادیتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ ایک جانب تو کسی طرح بھی مددگار نہیں ہے اور دوسری جانب اس سے دیگر سرکاری کاموں کے وقت پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ جب جبری گمشدگی کی ٹاسک فورس تشکیل دے دی جائے اور اسے فعال کر دیا جائے تو اس میں تعینات پولیس افسران مناسب رپورٹس کے ساتھ عدالت میں آئیں گے اور بہت سے دیگر پولیس افسران کا وقت بچ جائے گا۔

مزید پڑھیں: لاپتا افراد کا معاملہ: ’پیش رفت نہ ہونے پر پولیس افسران کو جیل بھیجیں گے‘

بینچ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت دی کہ وہ چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس سے ٹاسک فورس کے قیام کے لیے ملاقات کریں۔

سال 2012 میں لاپتا ہونے والے فرد کے کیسز میں بینچ نے کہا کہ لاپتا فرد کے لیے صوبائی ٹاسک فورس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیمز کے متعدد اجلاس ہوئے لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ لاپتا افراد کا سراغ لگانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے اور ایسے افراد کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی سے رجوع کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: وکیل کی ’جبری گمشدگی‘ پر سیکریٹری دفاع طلب

عدالت نے تفتیشی افسران کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں، جیل حکام، اسپیشل برانچز اور تمام صوبوں کے حراستی مراکز سے منتظر جوابات جمع کرنے کی ہدایت بھی کی۔

لاپتا افراد کے خاندانوں کو معاوضہ دینے کے بارے میں بینچ نے تجویز دی کی کہ اہلِ خانہ کو لاپتا فرد کی اس وقت کی آمدن(اگر ہو تو)، خاندان کے گھریلو اخراجات کی تفصیلات جمع کرانی ہوں گی جس کی تفصیلات کی تصدیق کرائی جاسکے اور اس سلسلے میں مناسب حکم جاری ہوسکے۔

قبل ازیں سندھ ہائی کورٹ نے محکمہ سماجی بہبود کے سیکریٹری، ڈائریکٹر بیت المال، سیکریٹری انسانی ترقی کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ کو کس طرح مالی امداد فراہم کی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں