جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر، نوٹیفکیشن جاری

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2022
---فوٹو:پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ویب سائٹ
---فوٹو:پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ویب سائٹ

صدر مملکت کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت قانون اور انصاف نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور یوں وہ عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جج بن گئی ہیں۔

وفاقی وزارت قانون اور انصاف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور جج تعیناتی کی منظوری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دی۔

مزید پڑھیں: پارلیمانی پینل نے جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کی منظوری دےدی

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ 'اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کی شق 177 کی ذیلی شق ون کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر مملکت نے لاہور ہائی کورٹ کی جج مسز عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی جج کے طور پر تعینات کردیا ہے'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا اطلاق ان کے حلف اٹھانے کے روز سے ہو گا۔

دو روز قبل پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تعیناتی نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دے دی تھی۔

جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی گزشتہ کئی مہینوں کی بحث کے بعد ہوئی جہاں کئی ماہرین کا خیال تھا کہ یہ سنیارٹی کے اصول کی بنیاد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں چوتھے نمبر پر سینئر جج تھیں۔

ان کی تعیناتی کے حق میں دلائل دینے والوں کا مؤقف تھا کہ آئین پاکستان کے تحت سپریم کورٹ میں جج تعیناتی کے لیے سنیارٹی کا اصول نہیں ہے اور ملک کی تاریخ میں صوبائی ہائی کورٹس سے ججوں کو سنیارٹی کو مدنظر رکھے بغیر تعینات کیا جاچکا ہے۔

اس ضمن میں سینیٹر فاروق نائیک نے کہا تھا کہ عائشہ ملک کے نام کی منظوری اتفاق رائے سے دی گئی ہے اور اس کی سفارش جوڈیشل کمیشن نے کی تھی۔

مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا تھا کہ ہم سینیارٹی کا طریقہ کار ختم نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک خاتون کا پہلی بار تقرر ہورہا ہے تو اس کی منظوری دی ہے۔

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کے نام کی منظوری ملکی مفاد میں دی ہے۔

قبل ازیں ستمبر 2021 میں منعقدہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کے نام کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران کمیشن کے 4 اراکین نے جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کی مخالفت کی جو لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے 4 اراکین نے حمایت کی تھی۔

اس وقت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبداللطیف آفریدی نے ملک بھر کی بارز میں احتجاج کا اعلان کیا تھا اور وکلا برادری نے اس معاملے کو سنیئر ججوں کی عدالت عظمیٰ میں تقرر کے لیے زیادتی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی: ’سینیارٹی قانونی تقاضا نہیں‘

جوڈیشل کمیشن کے 6 جنوری کے اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے تاریخی فیصلہ کیا یے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کا سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر ہوا۔

انہوں نے کہا تھا کہ 5 اراکین نے حق میں ووٹ دیا اور 4 اراکین نے مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں بطور جج تقرر کی حمایت کی۔

جسٹس عائشہ ملک کا تعارف

جسٹس عائشہ ملک 1966 میں لاہور میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم پیرس اور نیویارک سے حاصل کیں اور پھر کراچی گرامر اسکول سے سینئر کیمبرج مکمل کیا۔

انہوں نے لاہور میں پاکستان کالج آف لا سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایل ایل بی کرنے کے لیے ہارورڈ لا اسکول کیمبرج، میساچیوسٹیس، امریکا گئیں جہاں انہیں 1998-1999 میں لندن ایچ گیمن کی فیلو نامزد کیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک لاہورہائی کورٹ میں جج تعینات ہونے تک رضوی، عیسیٰ، آفریدی اور اینگل لا فرم کے ساتھ پہلے سینئر ایسوسی ایٹ اور پھر فرم کے لاہور دفتر میں انچارج کے طور پر کام کرتی رہیں۔

وہ 2012 میں لاہور ہائی کورٹ کی جج تعینات ہوئی تھیں اور اس وقت وہ چوتھی سینئر ترین جج کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

انہیں بینکنگ، این جی اوز، مائیکرو فنانس اور اسکلز ٹریننگ پروگرامز کی ماہر وکیل تصور کیا جاتا ہے۔

انہوں نے تحقیقی کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں بینکنگ لا پڑھایا اور کالج آف اکاؤنٹنگ اور مینیجمنٹ سائنسز کراچی میں مرکنٹائل لا پڑھاتی رہی ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmad Jan 21, 2022 08:15pm
Our current court system is over 200 years old, we need new reforms to speed up police and court cases and must be affordable to all Pakistanis.