افغان طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

24 جنوری 2022
یہ ملاقاتیں ناروے کے دارالحکومت میں واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہیں — فوٹو: اے ایف پی
یہ ملاقاتیں ناروے کے دارالحکومت میں واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہیں — فوٹو: اے ایف پی

ناروے: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے اوسلو میں مغربی حکام کے ساتھ اپنی اہم ملاقاتوں سے قبل افغان سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ انسانی حقوق سے متعلق بات چیت کا آغاز کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وفد نے اپنے تین روزہ دورے کے پہلے روز افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں سے بات چیت کی۔

یہ ملاقاتیں ناروے کے دارالحکومت میں واقع سوریا موریا ہوٹل میں ہو رہی ہیں، کیونکہ ماضی میں مشرق وسطیٰ اور کولمبیا کے تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ناروے ان مذاکرات میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔

مذاکرات سے پہلے طالبان کے نائب وزیر ثقافت اور اطلاعات نے امیر خان متقی کا ایک وائس نوٹ ٹوئٹر پر شیئر کیا، جس میں کامیابیوں سے بھرے اچھے سفر کی امید کا اظہار اور ناروے کا شکریہ ادا کیا گیا تھا، جس ملک کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ یورپ کے ساتھ مثبت تعلقات کے لیے ایک ذریعہ بن جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں؛ امداد کے حصول کیلئے مذاکرات، طالبان وفد کی اوسلو آمد متوقع ہے، ناروے

اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کے نمائندوں نے یورپ میں سرکاری ملاقاتیں کی ہیں، اس سے قبل انہوں نے قطر، روس، ایران، چین اور ترکمانستان کا سفر کیا۔

بات چیت کے دوران، امیر خان متقی یقینی طور پر طالبان کے اس مطالبے پر زور ڈالیں گے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو بحال کیا جائے کیونکہ افغانستان کو ایک خطرناک انسانی بحران کا سامنا ہے۔

گزشتہ 5 ماہ میں افغانستان کی انسانی اور اقتصادی صورت حال بہت زیادہ خراب ہوئی ہے کیونکہ کسی بھی مغربی ملک نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

گزشتہ سال اگست تک جب غیر ملکی افواج افغانستان سے نکلی تھیں اس وقت تک خانہ جنگی کے شکار اس ملک کے بجٹ کا تقریباً 80 فیصد حصہ بین الاقوامی امداد سے حاصل کیا جاتا تھا جب کہ اس وقت سے امریکا نے افغانستان کے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔

مزید پڑھیں: کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا، وزیر اعظم

سال 2001 میں امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے طالبان کو افغانستان میں اقتدار سے بے دخل کردیا تھا لیکن بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا تھا۔

طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد اچانک رک گئی تھی جس سے لاکھوں لوگوں کی حالت مزید خراب ہوگئی جو پہلے ہی شدید خشک سالی کے سبب بھوک کا شکار تھے۔

ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے زور دے کر کہا کہ یہ مذاکرات طالبان کی قانونی حیثیت یا شناخت تسلیم کرنے کے لیے نہیں ہیں لیکن ہمیں بہرحال ملک کے موجودہ حکام سے بات کرنی چاہیے، ہم سیاسی صورتحال کو اس سے بھی بدتر انسانی بحران کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اس موقع پر موجود اے ایف پی کے ایک صحافی نے رپورٹ کیا کہ کئی درجن مظاہرین نے ناروے کی وزارت خارجہ کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ’نو ٹو طالبان، طالبان ٹیررسٹس اور افغان لائیوز میٹر' کے نعرے لگائے۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی نے افغانستان میں ‘بدترین انسانی بحران’ سےخبردار کردیا

آج (پیر کے روز) طالبان امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے جبکہ منگل کو ناروے کے حکام کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق افغانستان میں انسانی اور اقتصادی بحران، سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خدشات اور انسانی حقوق، خصوصاً لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم سے متعلق افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ کی قیادت میں ایک امریکی وفد افغانستان میں ایک عوامی نمائندہ سیاسی نظام کی تشکیل پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ مذاکرات جنگ کے ماحول کو پرامن صورتحال میں تبدیل کرنے میں مدد کریں گے۔

کابل سے آنے والے وفد میں حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی بھی شامل ہیں جن کا کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے، 2019 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہونے سے قبل وہ کابل کے مضافات میں امریکی بگرام جیل میں کئی سال تک قید رہے تھے۔

افغان شہریوں کو اجتماعی سزا دینا ایک غلطی ہوگی، انتونیوگوتریس

طالبان کو 1996 اور 2001 کے درمیان اپنے پہلے دور اقتدار میں انسانی حقوق کو پامال کرنے کے الزامات کا سامنا رہا ہے، اب بین الاقوامی برادری یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ اس مرتبہ طالبان کس طرز پر حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ایسے وقت میں کہ جب طالبان جدت پسند ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں افغان خواتین اب بھی بڑے پیمانے پر سرکاری شعبوں میں ملازمتوں سے محروم ہیں اور لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکول بند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین پر طالبان کا سیاہ مرچ کا اسپرے

اقوام متحدہ کے مطابق ملک میں بے روزگاری آسمان چھو رہی ہے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کئی مہینوں سے ادا نہیں کی گئیں جبکہ 2 کروڑ 30 لاکھ افغان بھوک کا شکار ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ صرف افغانستان کی موجودہ حکومت کے مناسب برتاؤ نہ کرنے کی وجہ سے افغان شہریوں کو اجتماعی سزا دینا ایک غلطی ہوگی۔

کیا گارنٹی ہے کہ اس بار طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے، سابق افغان وزیر

ناروے میں رہائش پذیر ایک سابق افغان وزیر برائے کان کنی اور پیٹرول، نرگس نہان نے کہا ہےکہ انہوں نے اوسلو مذاکرات میں شرکت کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کو نارملائز کریں گے اور انہیں مضبوط بنا دیں گے جبکہ اس کی کوئی امید نہیں ہے کہ ان میں کوئی تبدیلی آئے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس مرتبہ وہ اپنے وعدے پورے کریں گے؟

افغانستان سے باہر موجود افغان انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ داؤد مورادیان نے ناروے کی جانب سے ایک ’سلیبرٹی اسٹائل‘ میں اٹھائے جانے والے امن اقدام پر تنقید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے وزیر خارجہ کی میزبانی سے خواتین کے حقوق کا خیال رکھنے والے ملک کے طور پر ناروے کی عالمی شناخت مشکوک ہوئی ہے کیونکہ طالبان نے افغانستان میں صنفی امتیاز کو بدستور مؤثر طریقے سے قائم رکھا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ ناروے مشرق وسطیٰ، سری لنکا اور کولمبیا سمیت کئی تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں