پاکستان میں اس وقت مہنگائی عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے اور حکومت بھی اس حوالے سے پریشان نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیرِاعظم عمران خان کی عوام سے ٹیلی فونک گفتگو کو قومی ٹیلی ویژن نے براہِ راست نشر کیا تو اس میں بھی حکومت کی یہ پریشانی نظر آئی۔

اس مہنگائی کے حوالے سے عمران خان کا مؤقف ہے کہ ’مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ عوام صبر کریں کیونکہ مہنگائی کم کرنے میں وقت لگے گا۔ امریکا میں اس وقت 40 سالہ عرصے کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ یورپ میں 30 سال کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ قرض، کورونا اور مہنگائی کی وجہ سے مشکل ہوئی۔ امریکا میں کھانے پینے کی چیزیں لینے کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں‘۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’افغانستان کے مسائل کی وجہ سے بھی مہنگائی ہوئی۔ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد افغانیوں نے ڈالر خریدنا شروع کردیے جس کی وجہ سے روپے کی قدر مزید کم ہوئی۔ وزیرِاعظم عمران خان نے کارپوریٹ سیکٹر کو مشورہ دیا کہ کارپوریٹ سیکٹر نے بہت زیادہ منافع کمایا ہے انہیں اب مزدوروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کرنا چاہیے‘۔

یہاں ہم بتاتے چلیں کہ مہنگائی کو قابو کرنے کی ذمہ داری اسٹیٹ بینک کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مالیاتی اقدامات کے ذریعے ملک میں طلب کے دباؤ کو کم کرے جس سے مہنگائی کی شرح میں کمی آئے۔ پاکستان میں مرکزی بینک اس وقت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی میں توازن کو قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔

مزید پڑھیے: اسٹیٹ بینک کی متضاد پالیسیاں اور عوام

پیر کو کاروباری ہفتے کے آغاز پر اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے بعد میڈیا سے بریفنگ میں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے فیصلوں کا اعلان کیا۔ اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لیے بنیادی شرح سود کو 9.75 فیصد پر برقرار رکھتے ہوئے مستقبل قریب میں پالیسی ریٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کے پاس صرف بنیادی شرح سود میں اضافے کا ٹول نہیں ہے بلکہ اور بہت سے ٹولز ہیں جیسا کہ اسٹیٹ بینک کمرشل بینکوں کے لیے کیش ریزرو کی شرط کو بڑھاتے ہوئے بینکوں کے لیے کیش ریزرو ریشو (سی آر آر) کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے بینکوں کے پاس موجود سرمایہ جو مارکیٹ میں آنا تھا اس کو محدود کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے کنزیومر فنانس پر بھی سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک نے غیر ضروری درآمدات کو روکنے کی بھی کوشش کی اور بہت سی پُرتعیش اشیا کی درآمد پر 100 فیصد تک کیش مارجن کی شرط بھی عائد کردی ہے۔ مرکزی بینک کو امید ہے کہ اس کے اثرات آنے میں وقت لگے گا اور اس وجہ سے معیشت میں طلب کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق تجارتی خسارے اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی ہوئی ہے۔ اگر مجموعی کرنٹ اکاونٹ خسارے میں ایندھن کی خریداری کو علیحدہ کردیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نان آئل کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب سے کم کا ہے۔ اس سے مراد یہ کہ اگر ایندھن کی درآمدات کو مجموعی درآمدات سے نکال دیا جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے مثبت کی طرف چلا جاتا ہے۔

اس میڈیا بریفنگ میں ہمارے دوست ریاض اینڈی نے سوال کیا کہ مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بڑی وجہ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ بتایا جارہا ہے جو پاکستان کے کنٹرول میں نہیں اور اگر تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر جائے تو پاکستان خود کو کیسے سنبھالے گا؟

اس پر گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا تھا کہ ’اگر پیڑولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوئیں اور یہ 100 ڈالر فی بیرل کی قیمت سے تجاوز کرگئیں تو اس مقصد کے لیے ہی پاکستان کے پاس رکھے ہوئے زرِمبادلہ ذخائر کو استعمال کیا جائے گا اور اس سے ایندھن کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ مگر جب ایندھن مہنگا ہوگا تو اس کی کھپت میں بھی کمی ہوگی جس کی وجہ سے ایندھن کی قیمت میں دوبارہ کم ہوجائے گی‘۔

موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے جب سے اپنے عہدے کا چارج لیا ہے تب سے دیکھا جائے تو روپے کی قدر میں ہونے والی تیزی سے کمی اور دیگر عوامل کی بنا پر اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی سخت ہی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ماسوائے کورونا وبا کے دورانیے کے بنیادی شرح سود بلند سطح پر ہی دیکھی گئی ہے۔

کورونا وبا کے دوران بنیادی شرح سود کو 7 فیصد تک کم کیا گیا تھا لیکن جیسے ہی دنیا میں کورونا وبا کا خاتمہ ہوا پاکستانی معیشت میں پوری دنیا کی طرح طلب کا دباؤ پیدا ہوا اور اس وجہ سے دوبارہ بنیادی شرح سود 7 فیصد سے بڑھا کر 9.75 فیصد کردی گئی ہے۔ یعنی معیشت دوبارہ قبل از کورونا والی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

مزید پڑھیے: کاروباری افراد سرمائے کیلئے بینک کے بجائے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے یہ بات تسلیم کی کہ اس وقت بنیادی شرح سود 9.75 فیصد ہے جبکہ مہنگائی کی شرح 12.3 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے اور اس صورتحال میں حقیقی شرح سود 2.55 فیصد منفی ہے۔ یعنی سرمائے میں حقیقی طور پر اضافہ ہونے کے بجائے 2.55 فیصد کی کمی ہورہی ہے۔

دوسری طرف خود گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے چند ہفتے قبل فیوچر سمٹ سے خطاب میں پاکستان کی معیشت میں خرابی کی بڑی وجہ یعنی مقامی بچتوں کی شرح کو خطے میں سب سے کم بتایا تھا۔ بچتوں کی شرح کم ہونے کی وجہ سے ملک میں بڑے منصوبوں کے لیے فنڈنگ دستیاب نہیں ہوتی ہے، اور بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری یا قرض پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

اسی حوالے سے راقم نے گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ جب سے پاکستانی بینکاری صنعت کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا ہے شرح سود کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور حقیقی شرح سود کتنی مثبت کیوں نہ ہو صارفین کو جو منافع بینک دے رہے ہیں وہ مہنگائی سے بہت کم ہوتا ہے، کیا ملک میں بچتوں کی شرح کم ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے؟

اس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بات تو تسلیم کی کہ بینک کھاتوں میں رکھی رقوم پر صارفین کو مناسب اور افراطِ زر سے زائد منافع نہیں مل رہا ہے اور اس منافع کو بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ مگر انہوں نے یہ بات بتانے سے گریز کیا کہ بچت کھاتوں پر منافع بڑھانے کے لیے اسٹیٹ بینک کیا اقدامات کرے گا۔

ایک طرف اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود کو مستحکم رکھا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ مہنگائی فوری طور پر جانے والی نہیں ہے اور کم از کم موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ مہینوں میں بھی مہنگائی 11 فیصد یا اس سے زائد ہی رہے گی۔ اس کے برعکس حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا ہدف 9 سے 11 فیصد طے کیا تھا۔

عالمی سطح پر اگر مہنگائی کم بھی ہوگئی تو پاکستان پر اس کے اثرات نہیں ہوں گے
عالمی سطح پر اگر مہنگائی کم بھی ہوگئی تو پاکستان پر اس کے اثرات نہیں ہوں گے

کیا مہنگائی میں اضافہ صرف بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوگا؟ ایسا نہیں ہے۔ اگر عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح میں کمی ہو بھی جائے تب بھی پاکستان میں مہنگائی کی شرح دو ہندسوں میں رہے گی۔ اس کی بڑی وجہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے جاری اعلامیے اور گورنر اسٹیٹ بینک کے خطاب میں سامنے آئی کہ حکومت کی جانب سے جو ضمنی بجٹ منظور کیا گیا ہے اس میں بڑے پیمانے پر مراعات کو ختم کردیا گیا ہے اور عام استعمال کی بہت سی ایسی ایشیا جن کو پہلے ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی ان پر سیلز ٹیکس عائد ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شعبہ جات جہاں پر پہلے سے سیلز ٹیکس عائد تھا وہاں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کے یہ اقدامات بھی مہنگائی کی شرح کو بڑھانے کا سبب بنیں گے۔

مزید پڑھیے: سالنامہ: عوام کے لیے معاشی لحاظ سے ایک اور مشکل سال

رضا باقر نے معیشت کی شرح نمو کے حوالے سے کہا کہ مرکزی بینک اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے معاشی شرح نمو سست رہے گی۔ جس کی وجہ سے ترقی کا ہدف جو 5 فیصد طے کیا گیا ہے وہ کم ہوکر 4 سے ساڑھے 4 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ ضمنی فنانس بل سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی ہورہی ہے مگر بقول گورنر اسٹیٹ بینک معاشی سُست روی ایک اچھی خبر ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی میڈیا بریفنگ سے 2 باتیں ہی اخذ کی جاسکتی ہیں کہ موجودہ مالی سال یعنی جولائی تک مہنگائی کی شرح میں کمی ایک خواب ہی رہے گی اور قیمتوں میں اضافے کی شرح 10 فیصد سے کم نہیں ہوسکے گی۔ اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑھائی گئی شرح سود اور ٹیکسوں میں اضافے سے معاشی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوگی اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا۔ یعنی نہ ہی عوام کی قوتِ خرید میں بہتری یا استحکام آئے گا اور نہ ہی ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوسکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راجہ راجہ Jan 27, 2022 03:30pm
مگر پی ٹی اائی کہتی ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے ہی نہیں