ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس نے دوماہ کی طویل تاخیر کے بعد حتمی چالان جمع کردیا

26 جنوری 2022
عدالت نے سماعت 3 فروری کو مقرر کردیا--فائل/فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے سماعت 3 فروری کو مقرر کردیا--فائل/فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں گزشتہ برس قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کیس میں پولیس نے دو ماہ کی طویل تاخیر کے بعد حتمی چالان جمع کرادیا جبکہ عدالت نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاملہ دہشت گردی کی دفعات پر سماعت کیلئے مقرر کردیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر الطاف حسین نے پراسیکیوٹر، وکیل صفائی اور شکایت کنندہ کو 3 فروری کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت میں حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی گئی

قبل ازیں تفتیشی افسر انسپکٹر سراج لاشاری نے حتمی تفتیشی رپورٹ جمع کرادی تھی، جس میں زیر حراست پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی جام اوایس، ان کے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے 8 ملازمین پر ناظم جوکھیو کو رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں تشدد کرکے قتل کرنے کی فرد جرم عائد کی تھی۔

تفتیشی افسر نے عبوری چالان میں پی پی پی کے دونوں قانون سازوں اور ان کے 21 ملازمین اور گارڈز کو 3 نومبر 2021 کوملیر میں واقع فارم ہاؤس میں ناظم جوکھیو کے اغوا، تشدد اور قتل پر نامزد کیا تھا۔

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے جام اویس، عبدالکریم اور دیگر کو 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے حتمی چالان میں گرفتار رکن صوبائی اسمبلی جام اویس پر ناظم جوکھیو کے قتل کا الزام عائد کردیا ہے اور ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 کے تحت مقدمے میں نامزد کردیا ہے۔

اسی طرح مفرور ملزم رکن قومی اسملبی عبدالکریم اور ان کا ملازم نیاز سالا پر اغوا، مقتول کے اہل خانہ کو دھمکانے اور ثبوت چھپاتے ہوئے غلط ثبوت پیش کرنے کا ملزم قرار دیا جو تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 بی، 34 اور 35 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

حتمی چالان میں مزید تین مفرور ملزمان محمد معراج، عطا محمد اور زاہد کو دفعہ 201 کے تحت ثبوت مٹانے اور جھوٹی معلومات دینے کا ملزم قرار دیا ہے۔

تفتیشی افسر نے حتمی چالان میں رکن قومی اسمبلی عبدالکریم، نیاز سالار، معراج، عطا محمد اور زاہد کو مفرور ظاہر کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: حتمی چالان جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت

انہوں نے پی پی سی کی دفعات 365 اور 109 واپس لیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے دوران مقتول کے اغوا کے ثبوت نہیں ملے تاہم دوسرے ملزم جمال احمد عرف جمال کو دفعہ 506 بی کے تحت ملزم قرار دیا۔

تفتیشی افسر نے چالان میں کہا کہ 6 ملزان بشمول محمد خان جوکھیو، اسحٰق جوکھیو، سلیم سالار، محمد سومار سالار، دودا خان عرف دودو جوکھیو، احمد خان شورو اور ریمانڈ پر موجود عبدالرزاق جوکھیو کے خلاف ثبوت نہیں ملے، اسی لیے ان کے نام خارج کردیے گئے ہیں۔

انہوں نے 17 افراد کو پراسیکیوشن کے گواہوں کے طور پر نامزد کر دیا ہے۔

درخواست گزار افضل جوکھیو کے وکیل مظہر جونیجو نے اس موقع پر اغوا کی دفعات خارج کرنے اور 6 ملزمان کو مقدمے سے الگ کرنے پر شکایت کی اور کہا کہ حتمی چالان میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی سیکشن 7 کو شامل کرلیا جائے گا تاکہ کیس انسداد دہشت گردی عدالت کو منتقل کرکے اسی کے مطابق سماعت کی جا سکے۔

جج نے حتمی چالان پر کوئی حکم دیے بغیر کیس پر وکیل صفائی اور شکایت کنندہ کے وکیل کے دلائل کے لیے سماعت 3 فروری کو مقرر کردی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا کہ '2 نومبر کو ارباب شیخ اپنے ملازمین غلام حیدر جوکھیو، میر حسن بروہی اور سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے افسر احمد خان شورو کے ساتھ شکار کے لیے گیا اور جب ناظم الدین جوکھیو اور عبدالعزیز سے ملاقات ہوئی جو موٹر سائیکل پر جنگل سے واپس گھر کی طرف آرہے تھے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ناظم جوکھیو نے ارباب شیخ سے شکار کے اجازت نامے سے متعلق سوال کیا جس پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور ناظم جوکھیو نے فیس بک پر لائیو نشر کیا تو ارباب شیخ نے ان سے موبائل چھین لیا'۔

مزید پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد

ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر محکمہ وائلڈ لائف کے عہدیدار احمد شورو، غلام حیدر جوکھیو اور میر حسن بھی دوسری گاڑی میں وہاں پہنچے اور ارباب شیخ کی ہدایت پر انہوں نے ناظم کو موبائل واپس کردیا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ جام برادرز نے اس واقعے کو اپنے لیے بے عزت کے طور پر لیا لہٰذا انہوں نے افضل جوکھیو پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بھائی کو ارباب شیخ کی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کریں اور ان سے معافی بھی مانگیں۔

انہوں نے کہا کہ ناظم جوکھیو نے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے باجود ان کی ایک نہ سنی۔

چالان میں انہوں نے کہا کہ 'اس کے برعکس ناظم جوکھیو نے فیس بک پر ایک اور ویڈیو جاری کی جہاں انہوں نے بتایا انہیں پہلی والی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے'۔

عدالت کو انہوں نے بتایا کہ 'عبدالکریم کی ہدایات پر ملزم نیاز سالار اور محمد سومار سالار اور ان کے بہنوئی دودو سالار نے ناظم اور افضل جوکھیو کو کار نمبر (اے ٹی ایکس-223) میں ان کی مرضی سے جام ہاؤس لایا'۔

ان کا کہنا تھا کہ راستے میں ناظم گاڑی سے اتر کر اپنے گھر چلاگیا جہاں سے انہوں نے اپنے دوست وکیل مظہر جونیجو کو وائس مسیج کردیا، جس میں انہوں نے کہا کہ 'جام عبدالکریم کے لوگ انہیں لینے کے لیے آئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل میں نامزد پانچ ملزمان احاطہ عدالت سے فرار

تفتیشی افسر نے بتایا کہ جام عبدالکریم نے فارم ہاؤس میں مقتول ناظم جوکھیو کو تھپڑ مارا، موبائل فون اٹھالیا اور ارباب شیخ کی ویڈیو کلپس ڈیلیٹ کردی اور پھر ناظم کو اپنے گارڈز میر علی اور حیدر علی کے حوالے کیا، جنہوں نے ان کو گارڈ کے کمرے میں منتقل کیا جبکہ افضل کو گھرجانے کی اجازت دے دی۔

ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جام اویس اس وقت نشے میں تھے اور گارڈ کے کمرے میں گئے جہاں انہوں نے گارڈز میر علی اور حیدر علی کے ساتھ ناظم جوکھیو پر تشدد کی اور پھر ان کو چھوڑ دیا'۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ناظم جوکھیو شدید تشدد کی وجہ سے دم توڑ گئے جس کے بارے میں جام عبدالکریم کو معلوم ہوا اور انہوں نے پولیس کو ایسا ظاہر کیا کہ ناظم جوکھیو جام ہاؤس میں لڑائی کے دوران جاں بحق ہوگیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں