آخرکار پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم جیت ہی گئی۔ اس بار گزشتہ سال کی نسبت کم انتظار کرنا پڑا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ پی ایس ایل اور کچھ ٹی20 ورلڈکپ کے اہم میچوں کے بعد ایک عجیب سا ذہن بن گیا تھا کہ ہر کوئی پہلے کھیلنے والی ٹیم کو جیتتا دیکھنا چاہتا تھا۔ ابتدائی چند میچوں کی کارکردگی کی بنیاد پر لگ یہی رہا تھا کہ اس کام کی ابتدا ملتان سلطانز یا اسلام آباد یونائیٹڈ ہی کریں گے اور کچھ ایسا ہی ہوا۔

سرفراز احمد کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز گزشتہ سیزن میں پہلے بیٹنگ کرکے جیتنے والی پہلی ٹیم بنی تھی اور اس سے بھی زیادہ پُرلطف بات یہ کہ اس وقت بھی مدِمقابل محمد رضوان کی ملتان سلطانز ہی تھی۔ وہی ملتان سلطانز جو بعد میں چمپیئن بن کر سامنے آئی تھی۔ تو کیا یہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے کوئی اشارہ تھا؟

خیر یہ تو مذاق تھا لیکن جو مذاق نہیں ہے وہ ہے ٹی20 کرکٹ اور خاص طور پر لیگز میں اینالسٹس کی اہمیت۔ وہ دن گزر گئے کہ جب کرکٹ صرف گیند اور بلے کا نام تھا اور کھیل صرف میدان میں کھیلا جاتا تھا۔ بہت ہوا تو سیریز سے قبل میڈیا پر دوسری ٹیم کو دباؤ میں لانے کے لیے بیان دے دیے گئے۔ ابتدا میں شاید ٹی20 کرکٹ بھی ایسی ہی تھی لیکن پھر لیگز آئیں اور آتی ہی چلی گئیں۔

اب کھلاڑیوں کا اور کپتانوں کا کام آسان نہیں تھا کیونکہ جب آپ ملک کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ کھلاڑیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، کون کیسا کھیلتا ہے، کس کی کیا صلاحیت ہے، اور سب سے بڑھ کر ان کا آپس میں اچھا تال میل ہوتا ہے۔ مگر لیگز میں تو ٹیم بنانا بھی ایک اچھی خاصی سائنس ہے۔ ایک ایسی سائنس کہ جس میں اینالسٹس ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں کہ ٹیم کو اب کس قسم کے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے اور کون کون سے کھلاڑی ٹورنامنٹ میں کتنے عرصے کے لیے دستیاب ہیں۔

ٹورنامنٹ کا آغاز ہوتا ہے تو ہر اچھا اینالسٹ میچ سے قبل کوچز کو اپنی رائے دیتا ہے جس کے مطابق وہ کپتان کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرسکیں۔ اس منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ تھا کہ کل ملتان سلطانز کی جانب سے خوشدل شاہ نے اننگ کا پہلا اوور کیا اور پھر ایک شاندار اسپیل مکمل کیا جس نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کامیاب جوڑی کو چلنے نہ دیا اور یوں ملتان سلطانز کی فتح کی بنیاد رکھ دی۔

پاکستان سپر لیگ 7 میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پچھلے سال کی طرح ابھی تک ٹاس ہار کر جیتنا کافی مشکل رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ابھی تک زیادہ تر ٹاس ہارنے والی ٹیمیں بیٹنگ میں اس روانی کے ساتھ نہیں کھیل پائیں جس کی امید کی جاتی ہے۔

کل بھی ملتان سلطانز کی اننگ کچھ ایسی ہی تھی، شاید پہلے بیٹنگ کرنے کا دباؤ ہی تھا کہ تسلسل سے عمدہ بیٹنگ کرنے والے محمد رضوان جلد وکٹ دے بیٹھے یا شاید اس وجہ سے کہ ہر کامیاب کھلاڑی کو کبھی ناکام بھی تو ہونا ہوتا ہے۔

شاید پہلے کھیلنے کا دباؤ ہی تھا کہ صہیب مقصود بھی اپنی مخصوص جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ نہ کرسکے اور نہ ہی رائیلی روسو چل پائے مگر اس اننگ میں کچھ الگ بھی تھا۔

شان مسعود کی اننگ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دیگر بلے بازوں کے مقابلے میں کسی اور وکٹ پر کھیل رہے ہیں، جیسے ان کے سامنے وہی بہترین باؤلرز باؤلنگ نہیں کر رہے ہوں بلکہ کلب لیول کے باؤلرز ہوں۔ جہاں باقی بیٹسمین 100 کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیل رہے تھے وہیں شان مسعود 150 سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیل رہے تھے۔ شان مسعود کی بیٹنگ میں کچھ الگ ہی روانی تھی، لیکن ایک بار پھر سنچری کے قریب آکر وہ ہمت ہار گئے۔ شان مسعود کی بہترین بیٹنگ کی وجہ سے سرفراز احمد اپنا سب سے اہم ہتھیار محمد نواز بھی صرف ایک ہی اوور کے لیے استعمال کرسکے۔

خوشدل شاہ کے اوپننگ اسپیل اور اس کی افادیت کا تو پہلے ذکر ہوچکا کہ جس کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی اوپننگ جوڑی جلد پویلین لوٹ گئی لیکن گلیڈی ایٹر کے کپتان سرفراز احمد کی بیٹنگ کا ذکر کرنا بھی یہاں نہایت ضروری ہے۔

سرفراز احمد اس بار ابھی تک فارم حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ پچھلے سال پی ایس ایل میں سرفراز 2 سے 3 نہایت عمدہ اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے تھے مگر اس بار سرفراز فارم میں نہیں لگ رہے۔ سرفراز احمد کی دلیرانہ بیٹنگ پاکستان کو کئی میچ جتوا چکی ہے، مگر شاید وہ پاکستانی ٹیم میں مسلسل ریزرو کے طور پر ساتھ رہنے اور بہت کم میچ کھیل پانے کی وجہ سے اپنی بیٹنگ فارم کھو بیٹھے ہیں۔

ملتان سلطانز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا یہ میچ آخری اوور تک نہایت دلچسپ رہا، اور اس نے کئی رنگ بدلے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سیزن میں یہ اب تک کا دلچسپ ترین میچ رہا تو غلط نہیں ہوگا کہ جہاں آخری کیچ تک دلچسپی قائم رہی۔

آخری اوور میں نسیم شاہ کی لگائی ہٹ اگر تھوڑا اور فاصلہ طے کرجاتی تو میچ کا نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا۔ نسیم شاہ کی جگہ محمد حسنین کو بیٹنگ کے لیے بھیجا جاتا تو شاید آخری اوور کی پہلی 2 گیندیں جو ضائع ہوئیں، وہ نہ ہوتیں اور تب بھی میچ کا نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا۔

افتخار احمد اور سہیل تنویر نے کوئٹہ کو فتح دلوانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی مگر آخر میں کسی کے پاس بھی ڈیوڈ ویلے کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اگر ملتان کی اس جیت میں ڈیوڈ ویلے کو اہم ترین ہتھیار قرار دیا جائے تو یہ شاید بالکل ٹھیک ہو، کیونکہ جب وہ 18واں اوور کرنے آئے تو کوئٹہ کو جیت کے لیے 18 گیندوں پر محض 26 رنز چاہیے تھے، اور خطرناک افتخار احمد وکٹ پر موجود تھے، مگر انہوں نے انتہائی شاندار اوور کروایا اور اس اوور میں نہ صرف افتخار احمد کو پویلین کی راہ دکھائی بلکہ اس اوور میں محض 3 رنز دیے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب وہ آخری اوور کرنے آئے تو کوئٹہ کو جیت کے لیے صرف 8 رنز درکار تھے، مگر یہاں بھی ویلے نے اپنے بھرپور تجربے کا استعمال کیا اور اس اوور میں محض 2 رنز دیے اور یوں ملتان کو 6 رنز سے کامیابی نصیب ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں