پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 کے ابتدائی میچوں میں ایک طرف تو ٹیمیں پہلے بیٹنگ کرکے جیتنے کو ترس گئی تھیں اور اب دوسری طرف پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں مسلسل تیسرا میچ جیت چکی ہیں۔ محمد رضوان کی ملتان سلطانز نے 2 مسلسل میچوں میں پہلے بیٹنگ کرنے کے بعد اسکور کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے راستہ دکھایا تو شاہین آفریدی کی لاہور قلندرز بھی اسی راستے پر چل پڑی۔

گزشتہ روز لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کی ایک خاص بات دونوں ٹیموں کی جانب سے صرف 3، 3 غیر ملکی کھلاڑیوں کا استعمال تھا۔ ویسے استعمال کی بات کریں تو شاہین آفریدی تو ان 3 میں سے بھی ایک غیر ملکی کھلاڑی کا استعمال ہی بھول گئے۔

پی ایس ایل میں یہ بات تو عام ہی ہے کہ کپتان کئی مرتبہ ایمرجنگ کھلاڑیوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کرسکے، مگر غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا، لیکن لاہور کے نئے کپتان شاہین آفریدی نے یہ بھی کرلیا۔ کل کے میچ میں تو ایسا لگا جیسے شاہین جنوبی افریقہ سے آئے ایک غیر معروف کھلاڑی ڈین فاکس کرافٹ کو بالکل ہی بھول گئے۔

فخر زمان نے اس ٹورنامنٹ سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اس بار ٹورنامنٹ میں ٹاپ اسکورر بننا چاہتے ہیں اور اب تک کھیلی گئی 3 اننگز سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے بالکل تیار ہیں۔

فخر زمان پچھلے چند ماہ سے شاٹس کے انتخاب کو بہتر سے بہتر کرتے جا رہے ہیں، جس کا اب فائدہ بھی مل رہا ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ رنز بنا رہے ہیں۔ فخر کے اوپننگ پارٹنر عبداللہ شفیق بھی اس اننگ میں چند اچھے شاٹس کھیلتے ہوئے نظر آئے اور پھر محمد حفیظ کی عمدہ بیٹنگ اور راشد خان کے کچھ مختلف سے شاٹس نے لاہور قلندرز کو 200 کے نفسیاتی ہدف تک پہنچا دیا۔

وہاب ریاض پوری اننگ میں باؤلرز کو مسلسل تبدیل کرتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ لاہور قلندرز کو ایک بڑے اسکور سے نہ روک سکے۔ آرش علی کو پاور پلے میں فخر زمان کے سامنے لانا وہاب ریاض کا اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوا اور وہیں سے ان کی اننگ میں کچھ ایسی روانی آگئی کہ پھر انہیں روکنا ممکن نہیں رہا۔ فخر زمان اس اننگ کے بعد شان مسعود کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رواں سیزن میں سب سے زیادہ اسکور بنانے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔

پشاور زلمی کی اننگ کے پہلے اوور میں افغانستان سے آئے حضرت اللہ زازائی شاہین آفریدی کے یارکر کو اسکوائر لیگ پر کھیلتے ہوئے بولڈ ہوگئے۔ شاید حضرت اللہ زازائی کو خبر نہیں تھی کہ ٹی20 کرکٹ میں اننگ کے آغاز میں تو شاہین آفریدی کو سیدھا کھیلنا بھی مشکل ہوتا ہے، اسکوائر لیگ کی جانب کھیلنا تو ناممکن ہی سمجھیے۔

جب پشاور زلمی کی پہلی وکٹ گری اور حیران کن طور پر حیدر علی کے بجائے حسین طلعت کو بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا لیکن وہ بالکل بھی فارم میں نظر نہیں آئے۔

حسین طلعت کی اننگ ایسی تھی کہ ان کے ساتھ وکٹ پر موجود کامران اکمل کی برق رفتار اننگ کے باوجود مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ حسین طلعت اسپنرز کو اچھا کھیل لیتے ہیں لیکن پاور پلے میں فاسٹ باؤلرز کے سامنے ان کی ایک نہ چلی، اور اگر اس موقع پر حیدر علی ہوتے تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ ابتدا میں وکٹ پر سیٹ ہونے کے لیے حیدر علی کو بھی وقت لگا اور وہ بڑے شاٹ کھیلنے سے قاصر رہے۔ وہ خوش قسمت بھی رہے کہ کبھی تو فیلڈرز نے ان کا کیچ پکڑنے سے ہی انکار کردیا اور کبھی گیند وہاں جاگری جہاں دُور دُور تک کوئی فیلڈر ہی موجود نہ تھا۔ لیکن پھر کچھ وقت لینے کے بعد وہ سیٹ ہونے لگے اور 34 گیندوں پر 49 رنز بناکر رن آؤٹ ہوگئے۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی اور بیٹسمین وکٹ پر ان کا ساتھ دیتا تو میچ کا نتیجہ پشاور کے حق میں بھی جاسکتا تھا۔

لاہور قلندرز نے اس میچ میں جیسی فیلڈنگ کی ہے اسے دیکھتے ہوئے وہ فتح کے حقدار ہرگز نہ تھے لیکن ان کے باؤلرز نے مسلسل محنت جاری رکھی۔ دوسری جانب پشاور زلمی کے بلے بازوں نے بھی اس محنت کا بھرپور ساتھ دیا اور گیند کو کیچ کی صورت میں پیش کرتے رہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ پہلے 15 اوورز میں لاہور قلندرز نے جتنی خراب فیلڈنگ کی، آخری 3 اوورز میں اتنے ہی شاندار کیچ پکڑتے نظر آئے۔

خراب فیلڈنگ کی بات کریں تو کیچ دونوں ہی ٹیموں نے چھوڑے لیکن باقی تمام پہلوؤں کی طرح اس پہلو میں بھی لاہور قلندرز نے پشاور زلمی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جب حیدر علی اور زمان خان کیچ چھوڑ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ نوجوان پاکستانی کھلاڑی غیر ملکی کھلاڑیوں سے فیلڈنگ ٹپس کیوں نہیں لیتے؟

خیر حیدر علی اور زمان خان تو نوجوان کھلاڑی ہیں لیکن جب فخر زمان جیسے بہترین فیلڈر اور محمد حفیظ جیسے تجربہ کار کھلاڑی کیچ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہی بھول جائیں کہ کیچ کس کا ہے تو دیکھنے والا نوجوان کھلاڑیوں کی غلطیاں بھول جاتا ہے۔ کامران اکمل رن آؤٹ مس کرتے ہیں تو لگتا ہی نہیں کچھ نیا ہو رہا ہے لیکن پھر ذیشان اشرف کی وکٹ کیپنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ کامران اکمل تو اس میچ میں بہت بہتر کیپنگ کرگئے۔

پچھلے 2 میچوں میں لاہور قلندرز کی جانب سے بین ڈنک کیپنگ کر رہے تھے۔ بین ڈنک بیٹنگ میں ناکام ہوئے تو ان کی جگہ ذیشان اشرف کو موقع دیا گیا تھا۔ ذیشان اشرف کو اس میچ میں بیٹنگ کا موقع تو نہ مل سکا لیکن انہوں نے ایک آسان کیچ اور اسٹمپنگ کا موقع ضرور ضائع کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو حسین طلعت اور نہ ہی حیدر علی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکے۔

میچ کے آخری اوور میں ڈیوڈ ویزے اس وقت ہیٹ ٹرک سے محروم رہ گئے جب انہوں نے وہاب ریاض اور آرش علی کو تو آؤٹ کرلیا اور پھر امپائر شوذب رضا نے سلمان ارشاد کو بھی ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا لیکن ریویو سے ظاہر ہوا کہ گیند لیگ اسٹمپ سے باہر جا رہی ہے۔

پچھلے 3 میچوں کے بعد پاکستان سپر لیگ سیزن 7 میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جیتنا اب ناممکن نہیں لگ رہا۔ اب پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بیٹسمین شاید اس ذہنی دباؤ کا شکار نہ نظر آئیں جیسے پہلے میچوں میں تھے۔ میچ تو پہلے بھی دلچسپ ہی ہو رہے تھے لیکن اب شائقین کے دلوں سے یہ خیال نکل گیا ہے کہ ٹاس جیتنے کا مطلب میچ جیتنا ہے اور اس سے دلچسپی میں مزید اضافہ ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں