افغان وزیر خارجہ کا بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت جلد تسلیم کیے جانے کا دعویٰ

03 فروری 2022
امیر خان متقی نے توقع ظاہر کیا کہ یورپی اور عرب ممالک کے سفارت خانے بھی کھلیں گے— فوٹو: اے ایف پی
امیر خان متقی نے توقع ظاہر کیا کہ یورپی اور عرب ممالک کے سفارت خانے بھی کھلیں گے— فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت تسلیم کروانے کے بہت قریب پہنچے ہیں لیکن نئی افغان حکومت کی جانب سے کوئی بھی رعایت ان کے شرائط پر ہوگی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اوسلو میں مغربی طاقتوں سے مذاکرات کر کے واپس وطن لوٹنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے واشنگٹن سے افغانستان کے اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا تاکہ انسانی بحران ختم کرنے میں مدد مل سکے۔

افغانستان سے 20 سال بعد امریکی قیادت میں غیرملکی افواج کا انخلا اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تاحال باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

امیر خان متقی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح پر قبول کیا جارہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو تسلیم کروانے کے مرحلے میں ہم اپنے مقاصد کے قریب تر پہنچ رہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ابھی طالبان کی افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، ایران

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا حق ہے، افغان شہریوں کا حق ہے اور جب تک ہم اپنا حق حاصل نہیں کرلیتے اس وقت تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘۔

اس سے قبل طالبان دہائیوں بعد گزشتہ ماہ پہلی بار مغربی سرزمین ناروے میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ ناروے نے زور دیا تھا کہ یہ ملاقات طالبان کے کہنے کے مطابق سخت گیر گروپ کو تسلیم کرنے کے لیے نہیں کی جارہی ہے۔

امیر متقی نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت فعال انداز میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے، جس سے قبولیت کے بڑھتے ہوئے مواقعوں کا واضح اشارہ ملتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی برادری ہم سے بات کرنا چاہتی ہے اور اس معاملے میں ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے‘۔

بین الاقوامی دباؤ

امیر متقی کا کہنا تھا کہ متعدد ممالک کابل میں اپنے سفارت خانے چلا رہے ہیں، جس سے حکومت تسلیم کیے جانے کی توقعات مزید بڑھی ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ نہیں، دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں توقع ہے کہ یہاں یورپی اور عرب ممالک کے سفارت خانے بھی کھلیں گے‘۔

افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ انسانی حقوق جیسے شعبوں میں بین الاقوامی دباؤ کے بجائے طالبان کی شرائط پر رعایت دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ اپنے ملک میں کر رہے ہیں، وہ نہ ہی ان شرائط پر پورا اترنے کے لیے کیا جارہا ہے اور نہ کسی کے دباؤ کے تحت کیا جارہا ہے۔

امیر متقی نے کہا کہ ’ہم یہ سب اپنے منصوبوں اور پالیسیوں کے مطابق کر رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست کے وسط میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 1996 سے 2001 تک قائم رہنے والے اپنے پچھلے اقتدار کے برعکس نرم اسلامی قواعد کے تحت حکومت کریں گے۔

تاہم نئے دور حکومت میں بھی خواتین کو محدود کرتے ہوئے انہیں سرکاری نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں لڑکیوں کے اکثر سیکنڈری اسکول بند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان وزیراعظم کا مسلم ممالک سے افغان حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ

دوسری جانب امیر خان متقی نے اصرار کیا کہ نئی حکومت نے سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ملازمین کو برطرف نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سابقہ حکومت کے 5 لاکھ خواتین اور مرد ملازمین میں سے کسی کو بھی ملازمت سے نہیں ہٹایا گیا، تمام ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں‘۔

تاہم کابل اور ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کا کہنا ہے کہ ان کی ملازمت ختم ہوچکی ہے یا انہیں تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہیں۔

مشروط امداد

واشگٹن کی جانب سے بیرون ملک موجود افغانستان کے تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کیے جانے سے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنے والی افغانستان کی معیشت شدید بحران کا شکار ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی افغان حکومت کی شکل واضح ہونے کے بعد اسے تسلیم کرنے کے متعلق فیصلہ کریں گے، امریکا

بڑھتی ہوئی غربت کے ساتھ متعدد علاقوں میں کاشت کاری بھی خشک سالی کا شکار ہے، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ رواں موسم سرما میں ملک کی 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔

واشگٹن اور عالمی برداری کی جانب سے دہرایا گیا ہے کہ مالیاتی امداد کی فراہمی طالبان کے انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کا ریکارڈ بہتر کرنے سے مشروط ہے۔

افغان وزیر خارجہ نے خواتین کے احتجاج، ناقدین کو حراست میں لینے اور طالبان حکومت کے خلاف ریلیوں کی کوریج کرنے پر صحافیوں پر تشدد کی خبریں مسترد کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک ہم نے اس نظام اور حکومت کے نظریے کی مخالفت کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے کسی کو نقصان پہنچایا‘۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں جامع حکومت کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے، وزیر اعظم

دریں اثنا، اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان پر ناقدین کو حراست میں لینے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد دفتر کے باہر سے حراست میں لیے گئے دو صحافیوں کو رہا کردیا گیا تھا۔

دو ہفتے قبل کابل میں عورتوں کے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی دو خواتین سماجی کارکن بھی لاپتا ہوئی تھیں۔

طالبان کی جانب سے خواتین کی گمشدگی پر لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی مکمل تحقیقات کا کہا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں