پتا ہی نہیں چلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاس نیک شگون سے ایک نحوست بن چکا ہے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 7ویں سیزن میں ہمیں مسلسل چوتھا ایسا مقابلہ دیکھنے کو ملا کہ جس میں ٹاس جیتنے والوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

یہ میچ تھا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کا، یعنی زخمی شیروں یا یوں کہہ لیں کہ ملتان سلطانز کی ڈسی ہوئی ٹیموں کا۔ ٹاس سرفراز احمد نے جیتا اور توقعات کے عین مطابق پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پھر اُن کے ساتھ وہی ہوا جو پچھلے 3 مقابلوں میں ٹاس جیتنے والوں کے ساتھ ہوا تھا یعنی ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکام ہوئے اور شکست مقدر ہوئی۔


ٹاس ہارنے پر جیت کی نئی روایت


کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل 7 کے پہلے 6 مقابلے ایسے تھے جس میں ٹاس جیتنے اور پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کرنے والی ٹیم نے کامیابیاں حاصل کیں۔ ہدف چاہے کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہوتا، اسے بہرحال حاصل کرلیا جاتا، بلکہ لاہور قلندرز کے خلاف میچ میں تو ملتان سلطانز نے 207 رنز کا ہدف بھی جا لیا تھا۔

پھر یہی سلطانز تھے جنہوں نے ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی۔ سب سے پہلے اسی نے ٹاس جیتنے والوں کو شکست کا مزا چکھایا۔ یہ کڑوا گھونٹ پینے والی پہلی ٹیم کوئٹہ تھی اور اگلے ہی دن اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی ملتان ہی کے ہاتھوں ٹاس جیت کر شکست کھائی۔

لاہور قلندرز نے پشاور زلمی کو ہرا کر اس روایت کو مزید پختہ کیا اور اب اسلام آباد یونائیٹڈ کی کامیابی نے گویا مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ٹاس جیتنا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ بلکہ آخری دونوں مقابلے جتنے یک طرفہ اور پھیکے ہوئے ہیں، اس کے بعد تو ہمیں معاملہ الٹ نظر آ رہا ہے۔


کوئٹہ کی غلطیاں


اس اہم مقابلے سے پہلے ہی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے چند بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطیاں کیں۔ مثلاً انہوں نے اِن فارم وِل سمیڈ کو باہر بٹھا کر اُن کی جگہ جیمز وِنس کو جگہ دی۔ اس سے انکار نہیں کہ جیمز وِنس بھی اچھی فارم میں ہیں لیکن وہ ابھی دو دن پہلے ہی ایک لمبا سفر کرکے پاکستان پہنچے ہیں۔

3 دن پہلے تو ہمیں وہ برج ٹاؤن، بارباڈوس یعنی دنیا کے دوسرے کونے میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس لیے فی الحال انہیں کھیل سے زیادہ آرام کی ضرورت تھی اور اگر کھلانا ہی تھا تو کم از کم سمیڈ کو تو باہر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ سمیڈ ہی تھے کہ جنہوں نے پشاور زلمی کے خلاف 97 رنز کی زبردست اننگز کھیلی تھی اور کراچی کے خلاف کامیابی میں بھی 30 رنز کے ساتھ اپنا حصہ ڈالا تھا۔

پھر سرفراز نے 2 مزید تبدیلیاں بھی کیں اور شاہد آفریدی اور کوئٹہ وال نوجوان عبد الواحد بنگلزئی کو ٹیم میں لائے۔ ان تمام تبدیلیوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں چلا۔ شاہد آفریدی نے پی ایس ایل کی تاریخ میں کسی بھی باؤلرز کی جانب سے سب سے زیادہ رنز کھانے کا ریکارڈ بنایا، جیمز وِنس صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ عبد الواحد کی اننگز 14 رنز سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

پھر ایک کمزور بیٹنگ لائن کے ساتھ ایک ایسی وکٹ پر ہدف کے تعاقب کے لیے نہیں جاتے کہ جہاں کچھ دن پہلے کھیلے گئے میچ میں 414 رنز بنے تھے۔ کوئٹہ پچھلا مقابلہ ہدف کے بہت قریب پہنچنے کے بعد ہارا بھی تھا، اس لیے انہیں محفوظ راستہ پکڑنا چاہیے تھا۔ خیر، اب پچھتائے کیا ہوت۔


اسلام آباد، ہر فیصلہ بہترین


دوسری جانب اسلام آباد نے جو فیصلے کیے، جو تبدیلیاں کیں، وہ بالکل درست ثابت ہوئیں۔ ان کا ہر تیر نشانے پر جا کر بیٹھا۔ مثلاً کولن منرو کو کھلایا، جنہوں نے کوئٹہ کی باؤلنگ کا جنازہ ہی نکال دیا۔ شاہد آفریدی کو آتے ہی تین چھکے لگانے کے بعد انہوں نے کسی باؤلر کو نہیں بخشا اور صرف 39 گیندوں پر 72 رنز کی اننگز کھیلی۔

منرو ویسے اِس وقت بہترین فارم میں ہیں۔ وہ حال ہی میں بگ بیش لیگ میں پرتھ اسکارچرز کی جانب سے بھرپور کارکردگی دکھا چکے ہیں بلکہ ان کی ٹیم اس سال ریکارڈ چوتھی مرتبہ بگ بیش چیمپیئن بھی بنی۔


اعظم خان نہیں خانِ اعظم


اعظم خان نے اس مقابلے میں بہت سے ناقدین کے منہ بند کیے۔ ان کی اننگ کی سب سے نمایاں جھلک وہ چھکا تھا کہ جو 107 میٹرز طویل تھا، یعنی اس سیزن کے بڑے چھکوں میں سے ایک۔ انہوں نے صرف 35 گیندوں پر 65 رنز کی طوفانی باری کھیلی اور انہوں نے آخری اوور میں شاہد آفریدی کو تین چھکے بھی لگائے۔


کیا لالا کا دور ختم؟


جہاں اعظم خان کو اس طرح کھیلتے ہوئے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا، وہیں شاہد آفریدی کو اتنی بُری طرح پٹتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ چاہے بطور بیٹسمین عرصے سے شاہد آفریدی کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا پائے، لیکن ان کی باؤلنگ کا جادو اب بھی کافی حد تک چلتا تھا۔ وہ ایک اچھے باؤلر کے طور پر تو ٹیم میں اپنی جگہ ثابت کرتے ہی تھے، لیکن آج سیزن کے پہلے مقابلے میں ان کو کوئی جائے فرار نہیں ملی۔

منرو کے بعد اعظم خان نے بھی ان کی باؤلنگ پر خوب رنز لوٹے، یہاں تک کہ لالا 4 اوورز میں 67 رنز دے گئے۔ اتنے رنز تو پی ایس ایل تاریخ میں کبھی کسی باؤلر کو نہیں پڑے۔

یہ وہی شاہد آفریدی ہیں جن کے پاس بحیثیتِ کپتان سب سے اعلیٰ باؤلنگ کارکردگی کا پی ایس ایل ریکارڈ ہے، صرف 7 رنز دے کر 5 وکٹیں اور اب غالباً اپنے آخری پی ایس ایل سیزن میں بدترین باؤلنگ کا ’تمغہ‘ بھی مل گیا۔


کپتان بمقابلہ کپتان


سرفراز احمد پر گزشتہ چند دنوں سے بہت تنقید ہو رہی ہے۔ ان کی بدن بولی (باڈی لینگویج) اور ذاتی کارکردگی دونوں اس وقت کڑی نگاہوں میں ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ ایک ایسی بیٹنگ لائن میں کہ جو بہت زیادہ طویل نہیں ہے، آل راؤنڈرز زیادہ ہیں اور مستند بلے بازوں کی کمی نظر آتی ہے، اس میں سرفراز پر بطور بلے باز بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس میچ میں بھی کچھ نہیں کر پائے۔

ان کے برعکس حریف کپتان شاداب خان تو کمالات بلکہ معجزات دکھا رہے ہیں۔ پچھلے میچ میں 91 رنز کی ناقابلِ یقین اننگز کھیلنے کے بعد اس مقابلے میں انہوں نے باؤلنگ میں اپنا جادو دکھایا اور صرف 28 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں، جس میں احسن علی، بین ڈکٹ، افتخار احمد، خود سرفراز احمد اور آخر میں شاہد آفریدی جیسے تمام نمایاں بلے بازوں کی وکٹیں شامل تھیں۔


کوئٹہ کا واحد روشن پہلو


کوئٹہ کی جانب سے واحد اچھی کارکردگی محمد نواز نے دکھائی، اور صرف باؤلنگ ہی میں نہیں بلکہ بیٹنگ میں بھی۔ پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے 4 اوورز میں صرف 32 رنز دیے اور2 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ان کے گرد دوسرے باؤلرز بُری طرح پٹ رہے تھے۔ ساتھی اسپنر شاہد آفریدی کو تو 67 رنز پڑے جبکہ جیمز فالکنر 45، سہیل تنویر 42 اور نسیم شاہ 43 رنز کھا بیٹھے تھے۔

پھر بیٹنگ کرتے ہوئے بھی نواز ہی سب سے نمایاں رہے۔ انہوں نے 22 گیندوں پر 5 چھکوں اور 2 چوکوں کی مدد سے 47 رنز بنائے اور فالکنر کے ساتھ 76 رنز کی شراکت داری بھی قائم کی۔ لیکن میچ نکالنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ البتہ وہ کوئٹہ کے مایوس کُن میچ کا ایک روشن پہلو ضرور تھے۔


اب آگے کیا؟


بہرحال، کوئٹہ کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے صرف 4 میچ ہی ہوئے ہیں اور 6 مقابلے ابھی باقی ہیں۔ وہ بالکل اسی جگہ کھڑا ہے، جہاں پچھلے سال ملتان سلطانز تھے، جس نے پہلے 5 میچوں میں صرف ایک کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس کے بعد ناقابلِ یقین کارکردگی دکھائی اور چیمپئن بنا۔

بس کوئٹہ کو بھی وہی کر دکھانا ہوگا۔ ایسا کرنا مشکل ضرور ہوگا لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سرفراز احمد کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو شاید بحیثیتِ کپتان یہ اُن کا آخری سیزن ہو۔ پھر افتخار احمد کو محمد نواز کی طرح کھیلنا ہوگا بلکہ اس سے بھی بہتر کارکردگی دکھانا پڑے گی۔ مڈل آرڈر میں بین ڈکٹ اور جیمز وِنس معاملات سنبھال سکتے ہیں، ان میں پوری صلاحیت اور اہلیت ہے۔ اس لیے یاد رکھیں ’گھبرانا نہیں ہے‘۔

دوسری جانب اسلام آباد اب 3 مقابلوں میں 2 کامیابیوں کے ساتھ پُرسکون ہو چکا ہے اور ملتان سلطانز کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن پر آگیا ہے۔ غیر ملکی ٹاپ آرڈر بہترین پرفارم کر رہا ہے، مڈل آرڈر بھی خوب چل رہا ہے، باؤلنگ کمال، فیلڈنگ میں دھمال، یعنی ایک مقابلہ نجانے کیسے ہار گئے، ورنہ ہر چیز ان کے قابو میں نظر آتی ہے۔

ویسے اگلا مقابلہ اب زخم خوردہ شاہینوں یعنی پشاور زلمی اور کراچی کنگز کا ہے۔ بابر اعظم کی قیادت میں کراچی تو اب تک کسی کامیابی کا لطف نہیں اٹھا سکا۔ تو دیکھتے ہیں اس سیزن کا پانسا کب پلٹتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں