اس سال چین میں سجا سرمائی اولمپکس کا میلہ کھیلوں کے ساتھ سیاست کا بھی بڑا میلہ ثابت ہوا۔ سرمائی اولمپکس کو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبیّنہ خلاف ورزیوں سے جوڑ کر واشنگٹن نے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا تو کئی یورپی اتحادی بھی اس کے ساتھ ہو لیے جبکہ باقیوں نے اپنی شرکت محدود کردی۔

بھارت نے عین آخری لمحات میں سفارتی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جب اسے معلوم ہوا کہ اولمپکس کی تقریب کی قیادت گلوان، لداخ میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے والے چینی فوج کا مقامی کمانڈر کرے گا۔

ان حالات میں بین الاقوامی برادری پر اپنا اثر و رسوخ دکھانا چین کے لیے مزید اہم ہوگیا۔ چین نے بطور خاص اہتمام کیا کہ دنیا بھر سے آنے والے سربراہانِ ریاست و حکومت کو افتتاحی تقریب میں دکھایا جائے۔ بیجنگ کے لیے لازم تھا کہ وہ اس تقریب کے ذریعے دنیا کو بتائے کہ چین، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک عالمی طاقت ہے۔

روس یوکرین کے معاملے پر نیٹو کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہے، پاکستان کو بڑے معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، سابق سوویت ریاستیں اور عرب بادشاہتیں بھی بیجنگ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے آن موجود ہوئیں۔ 20 ممالک کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور ان میں سے 8 ملکوں کے تو کھلاڑی دستے مقابلے میں شریک ہی نہیں جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کا ایک، ایک کھلاڑی شریک ہے۔

ان حالات میں اولمپکس کی افتتاحی تقریب دراصل چین کے اثر و رسوخ کا میلہ بنانے کی کوشش ہوگئی۔ افتتاحی تقریب سے پہلے چین اور روس کے صدور نے ملاقات کی اور نیٹو کو سخت لہجے میں تنبیہ کی کہ وہ مشرق کی جانب اپنے فوجی اتحاد کو توسیع دینے سے باز رہے۔

دونوں صدور نے ایک دوسرے کو متنازع معاملات بشمول یوکرین تنازع اور تائیوان کے معاملے پر مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ چین نے روس پر پابندیوں اور یورپ کی جانب سے گیس خریداری کے ممکنہ تعطل کے مسئلے پر آگے بڑھ کر تعاون کا ہاتھ بڑھایا اور روس سے 30 سال کے لیے اضافی گیس کی خریداری اور 10 سال کے لیے تیل کی خریداری کے بڑے معاہدے کرلیے۔

افتتاحی تقریب سے قبل چینی اور روسی صدر نے ملاقات کی—تصویر: اے ایف پی
افتتاحی تقریب سے قبل چینی اور روسی صدر نے ملاقات کی—تصویر: اے ایف پی

پاکستان کا صرف ایک کھلاڑی سرمائی اولمپکس میں ہے لیکن افتتاحی تقریب میں وزیرِاعظم اور 7 وفاقی وزرا و مشیران کا وفد شریک ہوا۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پسپائی کے بعد سے واشنگٹن اور نیٹو کے لیے پاکستان پہلے جیسا اہم نہیں رہا۔

کپتان کی کابینہ کے ارکان امریکی صدر بائیڈن کی طرف سے فون کال نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے، آئی ایم ایف سے امدادی پیکج پر بھی مدد نہ ملی اور منظور ہوئے قرضے کی قسطوں کے لیے بھی مذاکرات بلاوجہ طویل ہوتے رہے۔ بائیڈن کے فون کال نہ کرنے پر پاکستان نے واشنگٹن کی جمہوری کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا لیکن امریکی بے وفا حسینہ کی طرح بالکل بھی نہ پسیجے۔

پاکستان نے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں اعلیٰ سطح پر شرکت کا فیصلہ کیا۔ وزیرِاعظم کی چین روانگی سے پہلے خبریں آئیں کہ پاکستان بیجنگ سے 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں ڈپازٹ کروانے کی درخواست کرے گا۔ اس کے علاوہ معاشی امیدوں کا بھی بہت ذکر ہوا لیکن وزیرِاعظم کے دورے کے بعد اب تک ان معاشی امیدوں سے متعلق کوئی ٹھوس اطلاع اسلام آباد اور بیجنگ کی طرف سے نہیں دی گئی۔

کورونا کی وجہ سے ملاقاتیں محدود رہیں، اس پر بھی لے دے ہوئی کہ پروٹوکول نہیں ملا اور ون آن ون میٹنگ کا وقت نہیں ملا۔ دفترِ خارجہ کے حکام بھی پاکستانی میڈیا کو اس دورے کے نتائج سے پوری طرح آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔

چینی صدر شی جن پنگ اور وزیرِاعظم لی کی کیانگ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد مشترکہ اعلامیہ تو جاری ہوا لیکن اسے بھی روایتی جملوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں بھگتا دیا گیا۔ اس کے علاوہ دورے کا تجزیہ بھی ٹی وی اسکرینوں پر نظر نہ آیا۔

آخر ان ملاقاتوں میں ہوا کیا؟ اس کے لیے 33 پیراگراف پر مشتمل مشترکہ اعلامیے کو غور سے دیکھا تو کئی اہم باتیں نظر آئیں جو رپورٹ نہیں ہوئیں یا پھر میری نظر میں نہیں آئیں۔ مشترکہ اعلامیہ دونوں ملکوں کے مستقبل کے تعلقات اور خطے میں ہونے والی صف بندی کی نشاندہی کرتا ہے۔

یکجہتی کا اظہار

پہلی اہم مگر بظاہر عام سی بات چینی حکام کا یہ اعتراف ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ پاکستان اور چین کے درمیان یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ جملہ اس لیے اہم ہے کہ چین کو اس میلے میں دوستوں کی ضرورت تھی اور پاکستان وہاں موجود تھا، یہ علامتی موجودگی سفارتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔

متنازع معاملات پر حمایت

چین کو سنکیانگ کا نام لے کر سفارتی طور پر تنہا اور مطعون کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اصل معاملہ تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین کا ہے۔ اس مشترکہ اعلامیے کے مطابق پاکستان نے تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، ہانگ کانگ اور سنکیانگ پر چین کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان معاملات پر پاکستان کا موقف پہلے بھی یہی ہے لیکن موجودہ حالات میں موقف کا اعادہ اہم ہے اور دنیا میں ہونے والی صف بندی میں یہ اہم اشارے بھی دے رہا ہے۔

اعلامیے میں پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ یکجہتی اور متنازع معاملات پر حمایت کا ذکر کیا گیا ہے— تصویر: ٹوئٹر
اعلامیے میں پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ یکجہتی اور متنازع معاملات پر حمایت کا ذکر کیا گیا ہے— تصویر: ٹوئٹر

سی پیک منصوبے

تیسری اہم ترین بات پاکستان کی طرف سے سی پیک منصوبوں کی بروقت اور بلاتعطل تکمیل کی یقین دہانی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت بننے کے بعد سی پیک سے متعلق اس کے اہم عہدیداروں کے بیانات نے بیجنگ کو برافروختہ کردیا تھا اور منصوبوں پر کام التوا کا شکار ہوگیا تھا۔ اس کے بعد دہشتگردی کے واقعات نے ان منصوبوں کو بریک لگادی تھی۔

لیکن اب حکومت بیجنگ کو یقین دلا کر آئی ہے کہ ان منصوبوں کو التوا کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا اور بروقت تکمیل کی ہرممکن کوشش ہوگی۔ سی پیک کے حوالے سے حکومتی عہدیداروں نے جو پیچیدگیاں پیدا کی تھیں اسے دُور کرنے کی کوشش ہوئی ہے لیکن بیجنگ کس حد تک اعتماد کرنے کو تیار ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

صنعت و تجارت

چوتھا اہم نکتہ صحت، صنعت، تجارت اور گرین اینڈ ڈیجیٹل کوریڈورز کے قیام کی بات ہے۔ ان شعبوں میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا۔

گوادر بندرگاہ

پانچواں اور سب سے اہم نکتہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا کام تیز کرنا اور گوادر میں ’لو کاربن سرکلر انڈسٹری زون‘ کا قیام ہے۔ بلوچستان کے حالات کی وجہ سے گوادر بندرگاہ کے مستقبل پر خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں اور گوادر بندرگاہ پر کام میں تعطل نے کئی وسوسوں کو جنم دیا تھا۔ چین کی طرف سے اس پر کام تیز کرنے کا اعلان واقعی اہم ہے۔

دراصل گوادر بندرگاہ چین کے لیے اسٹریٹیجک اعتبار سے اہم ہے۔ یہ بندرگارہ چین کو آبنائے ملاکا کا متبادل فراہم کرتی ہے۔ تائیوان کے معاملے پر اگر کشیدگی بڑھتی ہے اور امریکا یا بھارت اس گزرگاہ کو چین کے لیے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گوادر بندرگاہ چین کے لیے لائف لائن ہوگی۔ چین کی تیل کی ضروریات کا 80 فیصد آبنائے ملاکا سے ہی گزرتا ہے۔ اگر سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائنری کا منصوبہ سنجیدگی سے لیتا ہے تو چین کے لیے یہ منصوبہ مزید اہم ہوجاتا ہے۔

چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ پر کام تیز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے—تصویر: ڈان/فائل
چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ پر کام تیز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے—تصویر: ڈان/فائل

سی پیک میں افغانستان کی ممکنہ شمولیت

بھارت چاہ بہار اور افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے لیے روٹ بنانے کی کوشش میں ہے لیکن پاکستان کی مدد سے چین نے کابل کی نئی حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ گوادر بندرگاہ بھارت کے چاہ بہار کے عزائم کا توڑ ہے اور افغانستان کے راستے وسط ایشیا سے رابطوں پر بھی اس مشترکہ اعلامیہ میں اہم اعلان ہوا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے کے لیے دونوں ملک طالبان حکومت کے ساتھ بات کریں گے۔ معاشی پابندیوں اور زرِمبادلہ ذخائر منجمد ہونے کے بعد طالبان کو ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے، جبکہ افغانستان میں امن کاروبار اور خوشحالی سے جڑا ہے۔ اگر یونہی غربت اور بے روزگاری رہی تو خطے میں امن ایک خواب بن جائے گا۔

چین میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبہ

ساتواں اہم ترین نکتہ کورونا وبا کے بعد چین سے بے دخل ہونے والے پاکستانی طلبہ سے متعلق ہے۔ چین نے یقین دلایا ہے کہ پاکستانی طلبہ کو واپسی اور تعلیم مکمل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

دفاعی تعاون

آٹھواں نکتہ دفاعی تعاون سے متعلق ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دفاعی تعاون کی رفتار کو جاری رکھا جائے گا۔ امریکا کی طرف سے بے رخی کے بعد پاکستان کا دفاعی دار و مدار اب چین پر ہے، گزشتہ کچھ عرصہ سے چین نے پاکستان کو دفاعی سازو سامان کی سپلائی تیز کر رکھی ہے۔

بحیرہ ہند میں بھارتی اجارہ داری کو روکنے کے لیے چین پاک بحریہ کو ڈسٹرائر جہاز اور فضائیہ کو فائٹر جیٹ فراہم کر رہا ہے۔ پچھلے ماہ پاکستان نے سرکاری طور پر تصدیق کی تھی کہ چین 25 عدد جے10 سی جیٹ فراہم کر رہا ہے جو اس سال 23 مارچ کی پریڈ سے پہلے پاکستان کے حوالے کردیے جائیں گے۔ یہ طیارے پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ کے ساتھ توازن قائم کرنے میں مدد دیں گے۔ بھارتی فضائیہ نے فرانس سے 36 رافیل خریدے ہیں جس کی وجہ سے اسے برتری کا زعم ہونے لگا تھا۔

چین پاک بحریہ کے لیے جہاز بھی فراہم کررہا ہے—تصویر: پاک بحریہ
چین پاک بحریہ کے لیے جہاز بھی فراہم کررہا ہے—تصویر: پاک بحریہ

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت

نواں اہم نکتہ چین کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی مکمل حمایت ہے۔ بظاہر یہ بھی پُرانا موقف ہے لیکن مشترکہ اعلامیے میں جس انداز سے یہ نکتہ لکھا گیا ہے وہ سفارتی اعتبار سے بہت اہم ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ چین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر تاریخ کا چھوڑا ہوا ایک تنازعہ ہے اور اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پر مناسب اور پُرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ چین اس حوالے سے ایسے کسی بھی قسم کے یکطرفہ اقدام کے خلاف ہے جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہو۔

افغانستان کے ساتھ تعلقات

دسواں نکتہ مستقبل میں بھی افغانستان میں تعاون برقرار رکھنے کا عزم ہے۔ چین اور پاکستان دونوں کی سلامتی کے لیے افغانستان بہت اہم ہے۔ چین افغانستان میں ازبک اور چینی نژاد شہریوں کے دہشتگرد گروپوں سے منسلک ہونے کے خدشات کا شکار ہے جبکہ پاکستان کئی دہائیوں سے افغانستان کی وجہ سے سیکیورٹی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

اعلامیے میں سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے—تصویر:فائل
اعلامیے میں سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے—تصویر:فائل

وزیرِاعظم کا دورہ چین یوکرین اور تائیوان کے تنازعات کے تناظر میں بھی اہم ہے۔ اس دورے کے بعد وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو بھی متوقع ہے جس کی تاریخیں ابھی طے نہیں ہوئیں تاہم خطے کے نئے سیکیورٹی منظرنامے میں پاکستان کو اس کی جغرافیائی حیثیت نمایاں اور ممتاز بناتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو نئے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ کسی تنازع میں براہِ راست فریق بننے سے گریز کی پالیسی اپنانی چاہیے۔

وزیرِاعظم کا دورہ چین دراصل دونوں ملکوں کی روایتی دوستی کی وجہ سے زبردست رہا لیکن وزیرِاعظم کو اس دورے کے دوران کوئی ایسا موقع نہیں ملا جسے ملک کے اندر سیاسی طور پر کیش کروایا جاسکتا ہو، اس لیے اس کی دھوم کم ہے۔

اس دورے کے دوران صدر شی جن پنگ کے ساتھ ذاتی تعلق کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا جو تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کے لیے شاید مایوس کن رہا اور اس دورے کو میڈیا میں بھی ایک حد تک ہی کور کیا جاسکا، ورنہ تحریک انصاف نے سعودی ولی عہد کا دورہ اسلام آباد یا وزیرِاعظم کا دورہ ریاض ملکی سیاست میں خوب استعمال کیا تھا۔

چین اور پاکستان کے مشترکہ مفادات اس قدر ہیں کہ کوئی ایک فریق بھی دوسرے کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ایک دوسرے کے حساس معاملات کو دونوں فریق جانتے ہیں اور ان کے موقف یکساں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں