حکومت کا سی ای او ریلوے نجی شعبے سے تعینات کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 12 فروری 2022
حال ہی میں فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے سربراہ جاوید صدیقی کے مستعفی ہونے سے ریلوے کو دھچکا لگا ہے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
حال ہی میں فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے سربراہ جاوید صدیقی کے مستعفی ہونے سے ریلوے کو دھچکا لگا ہے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

وفاقی حکومت نے پاکستان ریلوے (پی آر) کی سربراہی کے لیے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) یا سینئر جنرل منیجر کے عہدے پر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار پیشہ ور شخص کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے کے قانون کے تحت اعلیٰ عہدوں پر نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی خدمات حاصل نہیں کی جاسکتیں، تاہم حکومت کا ماننا ہے کہ کابینہ کی ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی سے راہ استوار ہونے کے بعد رولز میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ذرائع نے محکمے کے اپنی نوعیت کے اس پہلے فیصلے کو بے نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح کے انتظامات فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی (پی آر ایف ٹی سی) سمیت ریلوے کے دیگر محکموں کے لیے بھی شروع کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریلوے کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے نجی شعبے کی مدد لینے کا فیصلہ

ایک سینئر افسر نے ڈان کو بتایا کہ ’ادارہ جاتی اصلاحات سیل کی تجویز پر وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ریلوے کے سی ای او کے لیے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی خدمات حاصل کی جائیں، پاکستان ریلوے نے گزشتہ ہفتے نثار میمن کی ریٹائرمنٹ کے بعد حتمی منظوری کے لیے سمری وزیر اعظم ہاؤس بھیجی تھی۔

بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’چند روز بعد وزیر اعظم آفس کی جانب سے سمری واپس وزارت ریلوے کو بھیجی گئی تھی جس میں ان کی مدت اور حوالہ جات کی شرائط سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے، بعدازاں وزارت نے تجدید شدہ سمری وزیر اعظم کو بھیجی تھی‘۔

حال ہی میں فریٹ ٹرانسپورٹیشن کمپنی کے سربراہ جاوید صدیقی کے مستعفی ہونے سے ریلوے کو دھچکا لگا ہے، انہوں نے گزشتہ سال جولائی میں عہدہ سنبھالا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے جاوید صدیقی نے خود کو عہدے کے لیے غیر موزوں سمجھتے ہوئے استعفیٰ دیا، جس کی وجہ پاکستان ریلوے میں ’ کام میں روایتی سست روی کا ماحول‘ ہے۔

مزید پڑھیں: نجی کمپنی کا اعلیٰ افسر پاکستان ریلوے میں چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات

محکمے میں موجود ایک اور ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اگر حکومت نجی شعبے سے کسی شخص کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے سینئر اور جونیئر افسران سمیت قانون کے تحت عہدوں پر فائز اور اختیارات رکھنے والے ملازمین کو تبدیل کرنا ہوگا۔

عہدیدار نے وضاحت دی کہ ’بدقسمتی سے نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سبسڈیریز ریل کوپ، پراکس، پی آر ایف ٹی سی جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے پر پاکستان ریلوے کو تلخ تجربہ حاصل ہوا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’محکمہ نجی افسران کی سربراہی میں ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ ان کا کام کرنے کا طریقہ کار ریلوے ملازمین سے مختلف ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ جات کے افسران جلد از جلد فیصلے کرتے ہیں جبکہ قانونی ضابطگیوں کے باعث پی آر کے افسران ایسا نہیں کر سکتے، اس طرح کا سمجھوتہ محکمہ کے لیے موافق نہیں ہے اور اسے غیر فطری اتحاد کہا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریلوے بذاتِ خود بہت بڑی مافیا ہے، شیخ رشید

پاکستان ریلوے کی کارکردگی بہتر کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب پر افسر نے تمام ریلوے افسران کو ہٹانے اور ان کی جگہ نجی شعبے کے افسران کو تعینات کرنے اور پھر محکمے کی قیادت کے لیے انتظامیہ میں سے مکمل پروفیشنل کی تقرری کرنے یا ایک مؤثر سینئر افسر کا انتخاب کرنے کی تجویز دی۔

انہوں نے کہا کہ محکمے کو مناسب وسائل فراہم کرتے ہوئے مؤثر نگرانی کا نظام وضع کیا جائے اور دہائیوں پرانے قوانین، قواعد و ضوابط میں ترمیم کی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی ای او اور دیگر افسران کے تقرر کے قوانین میں بھی ترمیم کی جانی چاہیے، موجودہ قوانین کے تحت سی ای او کا تقرر صرف پاکستان ریلوے کے تین محکموں ٹریفک، مکینیکل اور سول سے کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں