اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریڈ زون میں اجتماعات پر پابندی عائد کر دی

20 مارچ 2022
عدالتی حکم میں خاص طور پر واضح کیا گیا کہ ڈی چوک میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکتا—فوٹو: آن لائن
عدالتی حکم میں خاص طور پر واضح کیا گیا کہ ڈی چوک میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکتا—فوٹو: آن لائن

پارلیمینٹ ممبران اور سیاسی کارکنوں کے درمیان کانسٹیٹیوشن ایونیو پر ممکنہ تصادم کے خدشات کو دور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے ریڈ زون میں کسی بھی سیاسی اجتماع کے خلاف فیصلہ سنایا ہے جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم آفس سمیت اہم سرکاری ادارے موجود ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ سندھ ہاؤس، پنجاب ہاؤس، بلوچستان ہاؤس، خیبرپختونخوا ہاؤس، الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ ججز کی رہائش گاہیں اور دیگر اہم تنصیبات بھی ریڈ زون میں واقع ہیں۔

جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں اور کارکنوں کی جانب سے سندھ ہاؤس پر حملے کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں حکومت کی جانب سے مشتعل مظاہرین کو سنبھالنے میں ناکامی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اپوزیشن ڈی چوک میں 10 لاکھ افراد کو جمع کرنے کی بات سے ڈر گئی ہے'

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’سندھ ہاؤس ایک بہت ہی حساس علاقے میں ہے جہاں چیف جسٹس ہاؤس، وزرا کالونی اور اہم رھائش گاہیں ہیں، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ لوٹوں کو کہیں اور شفٹ کر لے ورنہ پورا مہینہ تماشا لگا رہے گا، ہم کس کس کو روکیں گے‘۔

حکمران جماعت نے اعلان کیا کہ وہ اپنے قائد عمران خان کی حمایت کے لیے اور بظاہر پارٹی کے قانون سازوں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 10 لاکھ افراد کا جلسہ منعقد کرے گی۔

مزید پڑھیں: ڈی چوک جلسہ': صورتحال خراب ہوئی تو ذمے داری شیخ رشید، انتظامیہ پر عائد ہوگی'

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کے عوامی اجتماعات کو عوامی ریفرنڈم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اپنا ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں انہیں پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کے لیے پی ٹی آئی کے 10 لاکھ سے زائد حامیوں سے گزرنا پڑے گا اور واپسی پر اسی ہجوم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب اپوزیشن اتحاد نے بھی خبردار کیا کہ وہ اپنے حامیوں کے سیلاب کے ساتھ ڈی چوک پر آ جائیں گے۔

وکیل محمد آصف گجر کی ذریعے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے آئی ایچ سی کے جسٹس عامر فاروق نے مشاہدہ کیا کہ سیاسی، مذہبی یا سماجی اجتماع ہر مہذب معاشرے میں ایک معمول ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ قانونی، پرامن اور بغیر ہتھیاروں کے ہوں اور آئین اور قانونی دفعات کے مطابق ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن جماعتیں ڈی چوک پر جلسے کیلئے تیار

انہوں نے نوٹ کیا کہ کوئی بھی جلسہ جو اس طرح کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس طرح کے مقاصد کے لیے اسے مغربی پاکستان مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 میں مجسٹریٹ یا دیگر مجاز اتھارٹی سے اجازت لینے کا پابند کیا گیا ہے۔

عدالتی حکم میں خاص طور پر واضح کیا گیا کہ اس علاقے میں کوئی جلسہ نہیں ہو سکتا جس کو ریڈ زون قرار دیا گیا جہاں مجمع اکھٹا کرنا ممنوع ہے ۔

ڈی چوک، جسے ڈیموکریسی چوک بھی کہا جاتا ہے، ایک بڑا ٹاؤن چوک ہے جو وفاقی دارالحکومت میں جناح ایونیو اور کانسٹی ٹیوشن ایونیو کے سنگم پر واقع ہے۔

مزید پڑھیں: چوہدری شجاعت کا حکومت، اپوزیشن سے ڈی چوک میں جلسہ منسوخ کرنے کا مطالبہ

ڈی چوک کا اصل مقام ریڈ زون میں پارلیمنٹ ہاؤس کے بالکل سامنے تھا، سابق حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈی چوک ایک ممنوعہ علاقہ تھا، بعد میں اس سے ملحقہ پریڈ گراؤنڈ چوک غیر رسمی طور پر ڈی چوک کے نام سے جانا جانے لگا۔

یہ جگہ اکثر سیاسی اجتماعات کی آماجگاہ رہی ہے، اپریل 2016 میں حکومت نے حکم دیا کہ چوک کو دوبارہ تعمیر کیا جائے تاکہ اسے مظاہرین کے لیے ممنوع علاقہ بنایا جائے، تاہم یہاں سیاسی جلسوں کا انعقاد جاری رہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں