فلم ریویو: دی کشمیر فائلز

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2022
ممبئی کے ایک سینما کے باہر آویزاں کیا گیا فلم کا اشہتار—رائٹرز
ممبئی کے ایک سینما کے باہر آویزاں کیا گیا فلم کا اشہتار—رائٹرز

بعض اوقات پروپیگنڈا پہلی محبت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی منفرد اور دلکش جذبات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دونوں ہی اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہوتے ہیں، ایک ایسی دنیا جو آپ نے نہ پہلے کبھی سنی ہوتی ہے، نہ دیکھی اور نہ محسوس کی ہوتی ہے۔

یہ جذبات آپ کو ہوش میں بھی لاسکتے ہیں اور مدہوش بھی کرسکتے ہیں۔ پہلی محبت کے برعکس پروپیگنڈا بار بار ہوسکتا ہے۔ اور اگر گودی میڈیا، واٹس ایپ پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور خود کو عقل کل سمجھنے والے انکلز کے ملک میں رہتے ہوئے بھی آپ کو مزید پروپیگنڈے کی طلب محسوس ہو تو پھر ’کشمیر فائلز‘ دیکھنے کے لیے اپنے قریبی تھیٹر چلے جائیں۔ اگر متبادل حقیقت بھی آپ کو پہلی محبت کی طرح ہی متاثر کرتی ہے تو یہ 170 منٹ کی فلم دیکھنے کے بعد آپ خود کو یش چوپڑا کی کسی فلم کا ہیرو محسوس کریں گے۔

وویک اگنی ہوتری کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم 2 زمانوں کو دکھاتی ہے۔ اس میں 1990ء اور 2016ء کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں ملک کے مختلف حالات اور دو مختلف ولنز دکھائے گئے ہیں۔

اگر 1990ء کے زمانے میں کشمیر اور ’دہشتگردوں‘ کو دکھایا گیا ہے تو موجودہ زمانے میں اے این یو نامی دہلی کے ایک کالج اور ’طالب علم، دانشور، پروفیسر اور میڈیا‘ کو دکھایا گیا ہے۔ 1990ء میں دہشتگرد ایک مقامی استاد پشکر ناتھ پنڈت (انوپم کھیر) کے گھر پر حملہ کرکے اس کے بیٹے کو قتل کردیتے ہیں۔ موجودہ دور کی کہانی اس کے پوتے اور اے این یو کے طالب علم کرشنا (درشن کمار) کے گرد گھومتی ہے جو اپنے خاندان اور ملک کے ماضی سے قطع نظر کشمیر کی آزادی کے لیے کوشاں ایک پروفیسر رادھیکا مینن (پلاوی جوشی) کی حمایت کرتا ہے۔

اگر ایسا ممکن ہو تو پہلے ہم اس فلم کو مکمل طور پر فرضی تصور کرتے ہیں۔ یہ بہت ناقص لکھی ہوئی ہے جس میں لوگ نہیں بلکہ لاگ لائنز شامل ہیں۔ ہر کردار کی ایک تفصیل مجود ہے جس سے پیچیدگیوں اور ابہام کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور فلم بہت خشک اور سادہ رہ جاتی ہے۔ اس فلم میں پشکر کو ایک دین دار اور پُرامن ہندو، کرشنا کو ایک معصوم اور ’لبرل‘ طالب علم اور رادھیکا کو ایک مخصوص ایجنڈے پر چلنے والی پروفیسر دکھایا گیا ہے۔

یہ کردار کسی واٹس ایپ فارورڈ سے زیادہ کچھ نہیں۔ چاہے ماضی کو دکھایا جارہا ہو یا پھر حال کو، چاہے یہ کردار مسکرا رہے ہوں یا پھر غصے میں ہوں یہ فلم کے نظریے کو ہی آگے بڑھا رہی ہوتی ہے۔ اے این یو کا حصہ تو کرشنا اور رادھیکا کے درمیان ذہن سازی کرنے والی گفتگو کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کشمیر کا حصہ پشکر کے دوستوں اور کرشنا کے درمیان ہونے والی ’تربیتی‘ گفتگو کے گرد گھومتا ہے۔

کرشنا پنڈت کا کردار ادا کرنے والے درشن کمار
کرشنا پنڈت کا کردار ادا کرنے والے درشن کمار

فلم کے مناظر کئی بار دہرائے گئے ہیں اور شائقین کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا ہے جیسے وہ احمق ہوں۔ پھر وہی بات کہ فلم کا مکمل اسکرین پلے ایک واٹس ایپ فارورڈ (800 الفاظ) میں سما سکتا تھا۔ فلم میں ماضی اور حال کے مناظر میں ہونے والا تبادلہ بھی بہت بے ربط تھا اور اس کے لیے صرف یہ دیکھا گیا تھا کہ کس طرح صدمے کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ فلم میں فکری تجسس اور کھلے پن کے اس احساس کی کمی ہے جو انسانی حالت کی وضاحت کرتے لمحات میں شامل ہوتا ہے۔

اس میں کسی قسم کی حیرانی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ویویک اگنی ہوتری کی بنائی گئی فلموں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر جنسی نوعیت کی سی گریڈ فلمیں یا پھر ڈی گریڈ پروپیگنڈا فلمیں ہی بناتے ہیں۔

فلم سازی یا افسانہ سازی؟

تو وہ کیا چیز ہے جو کشمیر فائلز کو مختلف بناتی ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ بولی وڈ تاریخی طور پر ترقی پسند رہا ہو۔ یہاں تک کہ بولی وڈ کی اکثر مشہور فلمیں تو دائیں بازو کے نظریات اور حکومت، فوج اور ’روایت‘ کے حق میں تھیں۔ یہاں حالیہ نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ فلموں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جس میں چونکا دینے والی فلموں (جیسے کہ Bhuj) سے لے کر شرمناک فلمیں (مثلاً Tanhaji) شامل ہیں۔

اگر ویویک اگنی ہوتری کی فلم کی بات کی جائے تو یہاں اصل جھوٹ فلم کے نام میں ہی پوشیدہ ہے۔ فلم کے نام میں بنیادی لفظ ’کشمیر‘ نہیں بلکہ ’فائلز‘ ہے کیونکہ اس میں ایک تفتیشی اور صحافتی انداز پوشیدہ ہے۔ ’فائلز‘ سے کسی چیز کی رازداری کا بھی گمان ہوتا ہے۔ یوں ایک انقلابی احساس جاگتا ہے اور حقیقت کی تلاش کے مشن میں ناظرین بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

یہی اس فلم کا اصل کھیل ہے اور ویویک اگنی ہوتری اسے بہت عمدگی سے کھیلتے ہیں۔ وہ پوری فلم میں ایک ہی چال استعمال کرتے ہیں، وہ پہلے کشمیری پنڈتوں کی بے دخلی جیسے حقائق دکھا کر آپ کو اپنے قابو میں کریں گے اور پھر تاریخ کو مسخ کریں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے، پھر کچھ حقائق بیان کریں گے اور انہیں مسخ کریں گے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔

یہ فلم سازی نہیں بلکہ افسانہ سازی ہے اور اس فلم کے اصل مقاصد اس کے آغاز سے ہی عیاں ہوجاتے ہیں۔ فلم کا آغاز ایک ڈسکلیمر سے ہوتا ہے جس کی ابتدائی سطر میں ’حقیقی واقعات‘ اور ’کشمیر میں نسل کشی‘ جیسے اہم الفاظ شامل ہیں۔ فلم کے مکالموں میں کئی سطریں کشمیری زبان میں ہیں اور نیچے ان کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے، یوں فلم کو ’حقیقت‘ سے قریب تر دکھایا جاتا ہے۔ فلم کے کردار مقامی کھانوں جیسے کہ ندرو کا بھی ذکر کرتے ہیں جس سے شک مزید دُور ہوجاتا ہے۔

فلم کو ڈاکومنٹری کا انداز دینے کے لیے اس میں اصل فوٹیج کو بصری (ٹی وی پر بے نظیر بھٹو آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے) اور سمعی (فلم کے پہلے منظر میں 1990ء کی ریڈیو کرکٹ ڈاکومنٹری شامل ہے جس میں عمران خان سچن ٹنڈولکر کو باؤلنگ کروا رہے ہیں) ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کشمیر فائلز میں حقیقت اور افسانے کو آپس میں الجھا کیوں دیا گیا ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ سا ہے، یہ کرشنا جیسے ان ’بے فکرے‘ ہندو مردوں کے لیے ہے جن کا ذہن دانشوروں، اداروں اور غیر ملکی میڈیا نے تبدیل کردیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود اپنے ملک کو نہیں سمجھتے اور انہیں بچانے کی اور درست تربیت دے کر اس پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں مبالغے سے کام لے رہا ہوں تو میں آپ کو اس فلم کے جنون کے بارے میں بتاتا ہوں۔

ہندو راشٹرا کے نظریات

پہلی بات تو یہ کہ کرداروں کے ناموں (کرشنا، شوا، برہما، وشنو، مہیش، شردا) سے ہی ہندو مذہب کا اظہار کیا گیا ہے، پھر مکالموں (جب مرکزی ولن بِٹا، پشکر کو لات مارتا ہے تو وہ کہتا ہے ’اوم نماہ شوا‘) میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر فلم کے ابتدائی منظر میں بھی ماحول بنانے کے لیے ہندو بھگوان شوا کی جلتی ہوئی تصویر دکھائی جاتی ہے۔ یہ بہت معمولی مثالیں ہیں۔ اس قسم کی منظر کشی کے ذریعے ویویک اگنی ہوتری نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندو مت کو خطرہ لاحق ہے یا پھر یہ کہ ’ہندو خطرے میں ہے!‘

اگر آپ مزید ثبوت چاہتے ہیں تو فلم میں وہ بھی موجود ہیں۔ اس فلم میں ایک ہی پیغام کو کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ فلم ساز نے دہشتگرد کے مذہب کو ظاہر کرنے کے لیے ہر موقع کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً جب پشکر نے ’اوم نماہ شوا‘ کہا تو بِٹا نے جواب دیا کہ ’اگر کشمیر میں رہنا ہے تو اللہ اکبر کہنا ہے‘۔

بِٹا دراصل پشکر کا شاگرد تھا۔ یہاں پر یہ دکھایا گیا ہے کہ تمام کشمیری مسلمان دہشتگرد ہیں (فلم میں ایک سے زائد بار بہت واضح طور پر اس کا اظہار کیا گیا ہے)۔ یہ بھی ایک چھوٹی سی ہی مثال ہے۔ ملک میں کئی سالوں سے جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اس فلم میں پیش کیا جانے والا خیال یہی ہے کہ دہشتگرد مسلمان ہوتے ہیں یا پھر زیادہ درست یہ ہے کہ مسلمان دہشتگرد ہوتے ہیں۔

اور پھر بڑے لوگوں تک ہی کیوں محدود رہا جائے؟ فلم میں بچوں کو بندوقیں لیے مارچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ایک بچہ کہہ رہا ہے کہ ’پنڈتوں باہر نکلو‘، ایک بچہ مسجد میں نعرہ لگارہا ہوتا ہے کہ ’رالیو، گلیو یا چلیو [یا مذہب تبدیل کرو، یا یہ جگہ چھوڑو یا مرو]‘۔

ویویک اگنی ہوتری نے اس کی مثال بھی دی ہے۔ فلم میں شوا کے مسلمان اسکول ٹیچر کو دکھایا گیا ہے جس کی لمبی داڑھی ہے اور وہ بچوں کو کوئی فرقہ وارانہ کلمات دہرانے کی ہدایت کررہا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندو بچوں کو کس طرح دکھایا گیا ہے؟ فلم کے پہلے منظر میں کچھ مسلمانوں کو یہ کہتے دکھایا گیا ہے کہ ’سچن اچھا کھلاڑی نہیں ہے‘، پھر وہ ایک ہندو بچے کو پیٹنے لگتے ہیں اور ’پاکستان زندہ باد‘ کہنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ایک اخبار کی سرخی دکھائی جاتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ’دہشتگرد حملے میں 6 سالہ بچہ ہلاک‘۔ فلم کے آخری منظر میں بھی بہت عجیب طرح سے فلیش بیک دکھایا جاتا ہے۔ اس فلیش بیک میں ناظرین کے سامنے جو منظر ہوتا ہے اس میں ایک دہشتگرد ایک ہندو بچے کو سر میں گولی مار رہا ہوتا ہے۔

کشمیر فائلز میں سب سے بڑا خوف ہندوؤں کا خاتمہ اور مذہب کی تبدیلی ہے۔ اس فلم میں ہم صرف ’رالیو، گلیو یا چلیو‘ ہی نہیں سنتے بلکہ ’کشمیر بنے گا پاکستان، ہندو مردوں کے بغیر اور ہندو عورتوں کے ساتھ‘ بھی سنتے ہیں۔ آپ کو وہ داڑھی والا مسلمان استاد یاد ہے وہ بدمعاش بھی نکلتا ہے اور شوا کی ماں کو تنگ کرتا ہے۔

یہ فلم کم اور ہندو راشٹرا کا پرچار زیادہ ہے۔

اس فلم کے ہدایت کار اور ’اربن نکسل‘ نامی کتاب کے مصنف ویویک اگنی ہوتری نے اپنا اصل غصہ دہشتگردوں، انتظامیہ یا کسی اور کے لیے نہیں بلکہ اے این یو کے طلبہ اور پروفیسروں کے لیے دکھایا۔ یہاں وہ صحیح معنوں میں خطرناک ہوجاتے ہیں (اور شاید سب سے زیادہ اثر انگیز بھی)۔

رادھیکا کو ایک ایسی خاتون کے طور پر دکھایا گیا ہے جو کچھ معقول اور بہت سے غیر معقول خیالات رکھتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے: ان کے عجیب و غریب دعوؤں کو رد کریں، ان کے معقول نکات کو نظر انداز کردیں تاکہ وہ جو کچھ بھی کہیں اس کا مذاق اڑایا جاسکے۔ یہ ’انک ڈراپ‘ فلم سازی ہے۔ جس میں پہلے مسلمانوں کو دہشتگرد دکھایا گیا، اور پھر مظاہرین کو ’ملک دشمن‘۔

دہشتگردوں اور اے این یو کے لوگوں کو ایک ہی طرح سے دکھا کر ویویک اگنی ہوتری چاہتے ہیں کہ ناظرین رادھیکا کے نظریات کو دہشتگردی سے جوڑیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ جب بھی کسی بحث کے دوران، کسی نیوز پینل میں یا کسی احتجاجی مارچ میں ان نظریات کا اظہار ہو تو اس بات کو یاد رکھا جائے۔

رادھیکا کو طلبہ کے ساتھ ’فری کشمیر‘ کا پلے کارڈ لیے کھڑا دکھایا گیا ہے، وہ ’رائے شماری‘ کی بات کرتی ہیں، وہ برہان وانی، افضل گورو اور دی نیویارک ٹائمز کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ ’ہم دیکھیں گے‘ گاتی ہیں۔ ان کے ’کشمیر میں رابطے‘ بھی دکھائے گئے ہیں۔ انہیں کرشنا کو کہتے دکھایا گیا ہے کہ ’اس کا الزام دہشتگردوں پر نہیں حکومت پر ڈالو!‘

یہاں کسی وجہ سے اے این یو والے حصے کا آغاز 2016ء سے کیا گیا ہے۔ اے این یو کیمپس میں ’آزادی‘ کا مطلب ’انڈیا سے آزادی‘ ہے۔ فلم کی ہی طرح رادھیکا کو بھی ’سچ‘ کا جنون ہے۔ رادھیکا کو اتنا بُرا دکھایا گیا ہے کہ وہ بلآخر کچھ کامک ریلیف کا باعث بنتی ہے۔ فلم کے آغاز میں اسے ماؤ کے ایک پوسٹر کے پیچھے کھڑے ہوکر کرشنا کو دھمکاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک مرحلے کے بعد تو رادھیکا کا کردار اتنا مضحکہ خیز ہوجاتا ہے کہ مجھے امید تھی کہ اب اسکرین پر یہ ڈسکلیمر آئے گا کہ ’اس فلم کے دوران جے این یو کے کسی پروفیسر کو نقصان نہیں پہنچا‘۔

لیکن یہ سب کچھ بھی کافی نہیں تھا کیونکہ فلم میں اپنے آقا نریندر مودی کی تعظیم جو کرنی تھی۔ فلم میں ایک کردار کہتا ہے کہ ’موجودہ حکومت تو پنڈتوں کی حامی ہے‘، لیکن اس فلم کی اصل روح صرف یہ نہیں ہے کہ مودی اچھا ہے بلکہ یہ ہے کہ مودی کے علاوہ باقی تمام سیاستدان بُرے ہیں اور ان میں اٹل بہاری واجپائی بھی شامل ہیں۔

بعد کے ایک منظر میں بِٹا گاندھی سے اپنا مقابلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’نہرو اور واجپائی چاہتے تھے کہ لوگ ان سے پیار کریں‘ لیکن موجودہ وزیرِاعظم چاہتا ہے ’لوگ اس سے خوفزدہ ہوں‘۔

یہ فلم بہت حد تک بی جے پی کے انتخابی منشور کی طرح لگتی ہے۔ اس میں آرٹیکل 370 کا کئی مرتبہ حوالہ دیا گیا ہے، بِٹا کو ٹی وی پر آر ایس ایس ممبران کے قتل پر شیخیاں مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ فلم میں کانگریس پر بھی لعن طعن کی گئی ہے۔

یہ فلم 1990ء میں بی جے پی کی حمایت یافتہ وی پی سنگھ حکومت کی غیر فعالیت کے بارے میں خاموش ہے لیکن اس میں 1989ء کا فلیش بیک ضرور شامل کیا گیا ہے جس میں ’نوجوان لیڈر‘ ہونے کی وجہ سے مقبول وزیرِاعظم وادی میں تشدد کو نظرانداز کردیتا ہے کیونکہ وہاں کے وزیرِ اعلیٰ اس کا دوست تھا۔

فلم کا ہر اشتعال انگیز نکتہ کلائمیکس تک لے جاتا ہے جیسا کہ ہاورڈ رورک کی طرح کا ایک مونولوگ۔ یہ 14 منٹ دورانیے کا ہے اور یہ کشمیر کے حوالے سے ہندوتوا ذہنیت کی ایک خوفناک جھلک ہے۔ یہ بہت (بہت زیادہ) مانوس بھی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کی بنیاد تو عظیم ہندو باباؤں نے رکھی تھی اور پھر 1300ء کی دہائی میں ظالم مسلمانوں نے یہاں قبضہ کرلیا اور یہ کہ ان حقائق کو جان بوجھ کر چھپایا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کرشنا اے این یو کے ہجوم کی جانب انگلی اٹھا کر کہتا ہے کہ تم سب اس نسل کشی کے ذمہ دار ہو۔

میں نے یہ فلم ساؤتھ دہلی کے ایک سینما میں دیکھی تھی۔ وہاں ایک طویل خاموشی کے بعد تماش بین ردِعمل دینے لگے تھے۔ جب ’میڈیا‘ کو ’آستین کا سانپ‘ کہا گیا تو تھیٹر میں ہنسی کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ دیر بعد جب فلم میں عوام کی نمائندگی کرتا ہوا ایک نوجوان کشمیری لڑکا پہلی مرتبہ دکھایا جاتا ہے اور وہ کرشنا سے سوال کرتا ہے کہ ’کیا تم مجھے دہشتگرد سمجھتے ہو؟‘ تو میرے عقب میں بیٹھا شخص جواب دیتا ہے کہ ’ہاں‘ (ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اڑی دیکھتے ہوئے بھی مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا تھا)۔

تھیٹر سے باہر نکلتے ہوئے ایک درمیانی عمر کا شخص اشنائیڈرز لسٹ کو یاد کرتے ہوئے اپنے دوست سے کہہ رہا تھا کہ ’میں اس فلم کو 5 سے 6 مرتبہ دیکھوں گا۔ آپ تاریخ سے بھاگ نہیں سکتے‘۔

مودی کی جانب سے اس فلم کی توثیق نے اس بات کو یقینی بنادیا ہے کہ یہ باکس آفس پر خوب کامیابیاں سمیٹے گی جس سے اس کے سنگین انجام کو بھی جواز فراہم ہوتا ہے کہ کشمیر میں پیسہ ہے اور فائلوں میں جھوٹ۔


یہ تبصرہ ابتدائی طور پر دی پرنٹ اور بعد ازاں ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں 27 مارچ 2022ء کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں