ماہر علی
ماہر علی

یوکرین پر روسی حملے سے قبل امریکی خفیہ ایجنسیاں روسی صدر کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے کام کررہی تھیں تاہم اگر ان کے پاس کوئی اندرونی ذرائع موجود تھے تو شاید وہ انہیں گنوا چکی ہیں۔

کسی کو نہیں معلوم کہ ولادیمیر پیوٹن آگے کیا کریں گے، شاید خود انہیں بھی یہ بات معلوم نہیں ہے۔ کیا انہیں واقعی ایسا لگتا تھا کہ ان کی افواج کو بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر یہ کہ ان کا یہ ’خصوصی آپریشن‘ 2008ء میں جارجیا میں 5 روز تک جاری رہنے والی دراندازی جیسا ہوگا؟ اور کیا انہیں مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی شدت کا پہلے سے اندازہ نہیں تھا؟

اگر ان میں سے کوئی بھی اندازہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ روسی صدر حد درجہ بے خبر ہیں۔ ممکنہ طور پر اس کی وجہ ان کے معاونین اور مشیران ہیں جو انہیں حقائق پیش کرنے سے بہت خوفزدہ رہتے ہیں۔

یہاں جون 1941ء کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب جوزف اسٹالن نے سوویت جاسوسوں کی جانب سے ملنے والی نازی حملے سے متعلق قابلِ اعتماد اطلاعات کو مسترد کردیا تھا۔ اسٹالن کے ساتھی بھی اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ انہیں اس غلطی پر خبردار نہیں سکے۔

مزید پڑھیے: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

ظاہر ہے کہ اس مرتبہ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ خود روس جارح ہے۔ جس طرح 8 دہائیوں قبل جرمنی نے روس کو کم تر تصور کیا تھا شاید وہی غلطی اب روس نے کی ہے۔ خبروں کے مطابق روسی افواج کو ان کے اندازوں سے زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ان کے 6 سے زیادہ جرنل بھی مارے جاچکے ہیں۔

معلومات یا یوں کہیے کہ غلط معلومات کی بھرمار کے باعث جھوٹ اور حقیقت میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔ صدر پیوٹن تو یہی کہہ رہے ہیں کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق چل رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کہہ بھی نہیں سکتے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بڑھتے ہوئے نقصانات کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی کو بھی کچھ تبدیل کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے ہفتے کے روز وارسا میں فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے ایسی بات کہہ دی جس سے یہ گمان ہوا کہ وہ روس میں حکومت کی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔

اس تقریر سے کسی کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور اس کے بعد مشیران اور اتحادیوں نے صورتحال کو قابو میں لانے کی کوششیں کیں۔ پیر کے روز خود صدر بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کا بیان ’اخلاقی طور پر ناراضگی کا اظہار‘ تھا اور اسے ’پالیسی میں تبدیلی کا اظہار‘ نہ سمجھا جائے۔

کمزور ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے امریکی تجربے کو دیکھتے ہوئے امریکی صدور کو اس قسم کا لہجہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے وقت کہ جب بات ایسے ملک سے متعلق کی جارہی ہو جس کا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی امریکا کے جوہری ذخیرے کا مقابلہ کرسکتا ہو۔ اس کے برعکس صدر بائیڈن کا لہجہ اس حالیہ طرزِ عمل کے بالکل مطابق ہے جس کے تحت پیوٹن کے سامنے دھمکیوں اور اشتعال کا ڈھیر لگایا جارہا ہے۔

بلاشبہ پیوٹن بدترین امیدوں پر پورا اترے ہیں۔ ہم اب بس اس حوالے سے سوچ ہی سکتے ہیں کہ اگر گزشتہ کچھ ماہ کے دوران امریکا کی جانب سے سفارت کاری پر زور دیا جاتا تو کیا روس کی جانب سے اس قدر غیر دانشمندانہ حملے کو روکا جاسکتا تھا۔

مزید پڑھیے: یوکرین بحران کا جلد از جلد حل ناگزیر کیوں ہے؟

سفارتکاری کو موقع ضرور ملنا چاہیے تھا لیکن یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اگر ہم ماضی میں روسی صدر کی جانب سے روسی تاریخ کے حوالے سے ان کے نظریات سنیں تو وہ صرف سوویت یونین تک نہیں بلکہ زار دور (tsarist era) تک جاتے ہیں۔

وہ بظاہر قوم پرست فلسفی ایوان ایلین (1883ء-1954ء) اور فاشسٹ نظریے کے حامی الیگزینڈر ڈوگین سے اپنی نظریاتی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ان کے مقالوں نے یورپ اور امریکا میں بھی انتہائی دائیں بازو کے افراد کو متاثر کیا ہے۔ یوکرین میں ’نازی فکر سے متاثر' افراد کو ختم کرنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ اگرچہ یوکرین میں قوم پرستانہ شدت پسندی کے حوالے سے مشکلات ہیں لیکن اتنی نہیں جتنا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔

نئی صدی کے آغاز میں جب پیوٹن کریملن میں آئے اور اس کے فوراً بعد بورس یلسن کی جگہ لے لی تو انہیں ممکنہ طور پر ایک بہت بڑی بہتری کے طور پر دیکھا گیا۔ انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا گیا جو روس میں کسی حد تک نظم و ضبط لائے گا اور اس کی جمہوریت کا گلا گھونٹے بغیر اس کی معیشت کو مستحکم کرے گا۔ لیکن چیچنیا میں ان کے وحشیانہ جبر پر نظر رکھنے والوں کو ایسا کوئی وہم نہیں تھا۔

مشرق کی طرف نیٹو کی توسیع کے حوالے سے ان کا سخت رویہ غیر معمولی تھا۔ کوئی بھی روسی رہنما شاید ایسا ہی محسوس کرتا اور اسے شبہ ہوتا کہ واشنگٹن ماسکو کو نیچا دکھانے کے لیے ایسا کررہا ہے۔ لیکن پھر بھی ان میں سے اکثریت روس کو دورباہ عظیم بنانے کے لیے اس راستے کا انتخاب نہیں کرتی جس راستے کا انتخاب پیوٹن نے کیا ہے۔

مزید پڑھیے: زوالِ سوویت یونین

حالیہ ہفتوں میں لاکھوں روسی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔ وہ ایک ایسے پڑوسی کے خلاف بلاجواز جارحیت کے صدمے کو برداشت کرنے سے قاصر تھے جس سے انہیں کوئی فوری خطرہ نہیں تھا۔ پیچھے رہ جانے والے جنگ مخالف لوگ اقلیت میں ہیں۔ وہ نہ صرف ریاست اور اس کے فریب زدہ حکمران کے غصے کو برداشت کررہے ہیں بلکہ برین واش کیے گئے اپنے ساتھی شہریوں کی دھمکیوں کا بھی سامنا کررہے ہیں۔

اس وقت تو پیوٹن کے بعد کے روس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔ فوری طور پر اگر ہم کسی بہتر چیز کی امید کرسکتے ہیں تو وہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی ہے۔ اس کی بنیاد اس غیر جانبداری پر ہونی چاہیے جس پر یوکرین کسی حد تک پہلے ہی راضی ہوچکا ہے، شاید ان مذاکرات میں متنازعہ مشرقی علاقوں کے لیے کسی حد تک خود مختاری بھی شامل ہو۔

اس سے حالات معمول پر تو نہیں آئیں گے لیکن کم از کم یوں مزید اموات سے بچا جاسکے گا۔ شاید اس طرح روسی شہریوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ ان کا عظیم رہنما تاریخ کی قربان گاہ میں ان کے مستقبل کو قربان کررہا ہے۔


یہ مضمون 30 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں