سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے التوا میں مشکلات

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2022
وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے حمزہ شہباز کا مقابلہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) اتحاد کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی سے ہے— فائل فوٹوز: ڈان نیوز
وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے حمزہ شہباز کا مقابلہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) اتحاد کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی سے ہے— فائل فوٹوز: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخلوط حکومت کے لیے اب وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں مزید تاخیر میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی روز اپوزیشن جماعتیں بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے میں کامیاب ہو گئیں جس سے صوبائی حکومت کے لیے اپنے کارڈز کھیلنے کی گنجائش مزید کم ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں حکمران اتحاد نے ایک بار پھر اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ووٹ نہ دیں ورنہ ان کو ڈی سیٹ کر دیا جائے گا، حمزہ شہباز کا مقابلہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) اتحاد کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی سے ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے نئے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی ’سرعام خریدوفروخت‘ کا نوٹس لے، ہم آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت صدارتی ریفرنس پر ایک مضبوط فیصلے کی امید کرتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں مشترکہ اپوزیشن کو وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے شاید پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کی ضرورت بھی نہ پڑے کیونکہ ان کے پاس سابق حکومت کے اتحادیوں کی حمایت سمیت مطلوبہ تعداد موجود ہے، لیکن پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کو اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے پی ٹی آئی مخالفین کی اچھی خاصی تعداد کی حمایت کی ضرورت ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل خرم چغتائی نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے صورتحال نازک ہوگئی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن اپنی گنتی پوری کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی پر انحصار کر رہی ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کے منحرف اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہونے سے بچنے کے لیے ووٹنگ کے لیے نہیں آسکتے، اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کو آگے بڑھانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کو ہائی کورٹ کی مداخلت درکار ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) وزیر اعلیٰ کے قبل از وقت انتخاب کے لیے آج ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، پارٹی کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ہم جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کو حوصلہ ملا کہ اسے صوبہ پنجاب میں بھی ایسا ہی ریلیف ملے گا، ہم پرامید ہیں کہ پنجاب میں قائد ایوان کا انتخاب چند دن میں ہو جائے گا اور یہ عمل کسی رکاوٹ سے پاک ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور کھوکھر گروپ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی نے پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنی نشستیں قربان کر دیں گے۔

ایک روز قبل مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اپوزیشن کو پنجاب اسمبلی میں داخلے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ اسپیکر پرویز الہٰی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے اجلاس بلانے کے 'حکم' کو 'غیر قانونی' قرار دیے جانے کے بعد اسمبلی کو سیل کر دیا گیا تھا۔

اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے دستخط شدہ پہلے نوٹی فکیشن کے مطابق اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل کو بلایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ 'منتخب' ہوگئے ہیں، اپوزیشن کا دعویٰ

پرویز الہٰی نے اسپیکر کے طور پر اپنا اختیار استعمال کیا تھا اور دوست محمد مزاری کو سونپے گئے اختیارات فوری طور پر واپس لینے کا حکم دیا تھا۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف ان کے اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد ان سے سیشن کی صدارت کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں