رافعہ ذکریہ وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریہ وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم بے چینی اور عدم اطمینان کے دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں صرف پاکستان کے اندرونی حالات کی بات نہیں کررہی بلکہ عالمی صورتحال کے حوالے سے بات کررہی ہوں۔ جب ہماری ٹیلی ویژن اسکرینیں ملک میں جاری افراتفری سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ اس شدید بربادی اور آنے والی بربادی کو دکھانے لگتی ہیں۔

اس وقت تو اس تباہی کے مظاہر میں یوکرین کی جنگ شامل ہے۔ شام میں تباہی پھیلانے والے روسی جنرل ماسٹر مائنڈ نے اب یوکرین کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ اس نے ایک ٹرین اسٹیشن پر حملے کا حکم دیا جس میں 50 شہری ہلاک ہوگئے۔ اب جبکہ جنگ کو شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد ہوچکا ہے تو اس کی حقیقت ظاہر ہورہی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا سری لنکا کی بحرانی صورتحال موروثی سیاست کا نتیجہ ہے؟

سری لنکا میں مہنگائی اور خوراک کا بحران یوکرین پر روسی حملے سے پیشتر بھی جاری تھا اور وہ سڑکوں پر ابل پڑا۔ لوگوں کی بھوک مٹانے میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے کابینہ کے اراکین بھی مستعفی ہوگئے۔ خبروں کے مطابق سڑکوں پر نکلنے والے لوگ سیاسی ورکر نہیں ہیں بلکہ ان کی تو کوئی سیاسی وابستگی بھی نہیں ہے، وہ تو بس عام لوگ ہیں اور دفاتر اور دکانوں میں کام کرتے ہیں اور گھر والوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔

ردِعمل کے طور پر سری لنکا نے قرضوں کے بحران سے بچنے کے لیے بین الاقوامی ایجنسیوں کی مدد طلب کی۔ وزیرِ خزانہ علی صابری کا کہنا ہے کہ قرضوں کے بحران سے بچنے کے لیے 3 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ سری لنکا کی جانب سے آئی ایم ایف کو ادائیگیاں روکنے اور مزید قرضے کو ری اسٹرکچر کروانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے جس کے ایک ارب ڈالر اگلے چند ماہ میں ادا کرنے ہیں۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں مصر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ مصر میں استعمال ہونے والی گندم کا 85 فیصد روس اور یوکرین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان دونوں ممالک سے سیاح بھی مصر کا رخ کرتے ہیں جو مصر کی معیشت کے لیے بہت اہم ہیں۔ اب مصر بھی آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے مصری کرنسی کی قدر میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی اور یہ گراوٹ صرف آئی ایم ایف سے ڈیل کی امید میں رکی۔ اگر یہ ڈیل ہو بھی جاتی ہے تو بھی مصر میں خوراک کا بحران آنا تقریباً طے ہے۔ اگرچہ گندم کے متبادل برآمد کنندہ تو موجود ہیں لیکن شرم الشیخ اور الاقصر کے ہوٹلوں میں رہنے والے سیاحیوں کی واپسی ابھی نظر نہیں آتی۔ جب ملک کے باہر جنگ ہورہی ہو، ملک میں قحط اور بھوک ہو تو سب سے پہلے تفریح کی ہی قربانی دی جاتی ہے۔

حالیہ برسوں میں مصر 3 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے۔ مصر کو ملنے والی تازہ ترین فنڈنگ 12 ارب ڈالر کا قرض تھا۔ یہی قرض معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں اور ان کے بغیر معیشت تباہ ہوجائے گی۔

مزید پڑھیے: عمران خان کے انتخابی معاشی وعدے کس حد تک پورے ہوئے؟

سری لنکا، مصر اور ظاہر ہے کہ یوکرین کی صورتحال کو سمجھنے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی مالیاتی اداروں پر بہت دباؤ پڑے گا۔ جو امداد اور قرضے پہلے آسانی سے مل جاتے تھے ان کا حصول اب بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ وہ اقدامات جنہیں ہونا تھا اور جن پر انحصار کیا گیا تھا وہ نہیں ہوسکیں گے۔ یوں ان ممالک اور لوگوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جو کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور اس سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے سخت حالات کا سامنا کررہے ہیں۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایسی صورتحال میں کوئی کیوں پاکستانی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہے گا۔ تقریباً ایک ماہ پہلےاس وقت کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین سے آئی ایم ایف نے یہ سوال کیا تھا کہ پاکستان ڈیڑھ ارب ڈالر کے سبسڈی پیکج کو کس طرح برداشت کرے گا۔ گزشتہ حکومت تو کسی طرح انکوائری سے گزر گئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو بھی حکومت باہر سے مانگی گئی رقم کی مدد سے عوام کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرے گی اسے اسی قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس انکوائری کے علاوہ آئی ایم ایف نے 2019ء میں پاکستان کو ’ریسکیو پیکج‘ کے تحت دیے گئے 6 ارب ڈالر کا جائزہ بھی شروع کردیا ہے۔ گزشتہ حکومت کا کہنا تھا کہ اس ریسکیو پیکج کی رقم واپس کردی جائے گی۔ تاہم یہ گزشتہ حکومت کا وعدہ تھا، اب جبکہ نئی حکومت آچکی ہے تو یقیناً وہ گزشتہ حکومت پر اس کا الزام دھریں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ سب موجودہ حکومت کا کیا کردہ ہے یا پھر گزشتہ حکومت کا۔ ان کو اس بات کی تشویش ہے کہ قرض خسارے کو کس طرح پورا کیا جائے اور کیا پاکستان ایسا ملک ہے جسے مزید قرض دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جو عالمی اداروں سے قرض کے لیے بیرونی گارینٹرز پر منحصر ہوتا ہے اس کے لیے یہ اہم سوال ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ اس وقت مستقبل اس سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آرہا۔

مزید پڑھیے: ’وہ اہم معاملات جن پر نئی حکومت کو فوری طور پر توجہ دینا ہوگی‘

تاہم اس مرتبہ مقابلہ سخت ہوگا۔ عالمی مالیاتی اداروں کو کئی ممالک سے درخواستیں موصول ہوں گی جن میں جنگ زدہ یوکرین، قحط زدہ مصر اور فسادات کا شکار سری لنکا بھی شامل ہے۔ اس وجہ سے ان عالمی اداروں کو کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ یہ فیصلے پاکستان کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔ یوں ایک خوفناک صورتحال پیدا ہوجائے گی جو عوام کو ان مزید ابتر حالات کی جانب دھکیل دے گی جو مایوسی کی اس سطح تک پہنچ سکتی ہے جو دیگر ممالک میں دیکھی جارہی ہے۔

نئی حکومت کو قرضوں کے بحران سے بچنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی پیش کرنی چاہیے۔ پیٹرول، چاول اور چینی کی بڑھی ہوئی قیمتیں پہلے ہی ملک میں غریبوں کی کمر توڑ رہی ہیں اور متوسط طبقے کی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔

ایسی صورتحال میں نعرے بازی اور وعدوں سے بڑھ کر مستقبل کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو اسے عوام کی جانب سے زیادہ سراہا جائے گا جو اب تک اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ نعرے وقتی طور پر تو فتح کا احساس دلا سکتے ہیں لیکن بھوک ضرورت اور خواہشات کی چیخ و پکار میں زندہ رہتی ہے۔


یہ مضمون 13 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں