نیب، مرکزی بینک کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر سوال نہیں اٹھا سکتا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2022
قرضوں کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اے این ایل 22 مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کے تبادلے کے معاہدے میں داخل ہوا ہے— سپریم کورٹ ویب سائٹ
قرضوں کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اے این ایل 22 مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کے تبادلے کے معاہدے میں داخل ہوا ہے— سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) بینک کے قرضوں کے شیڈول میں تبدیلی اور ری اسٹرکچرنگ پر سوالات اٹھانا شروع کردے تو یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کا اختیار کم کرنے کے مترادف ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید منصور علی شاہ کے جاری کردہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سے مالی تصفیے بے معنی ہوجائیں گے جبکہ تاجر برادری ایس بی پی کے حوالے سے عدم اعتماد کا شکار ہوجائے گی۔

فیصلے میں وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کا عدم اعتماد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں معیشت عدم استحکام کا شکار ہوجائے گی اور یہ عمل تجارت اور کاروبار میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب بنے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ تین رکنی بینچ کا حصہ ہیں جو سندھ ہائی کورٹ کے 9 جولائی 2019 کے حکم کے خلاف متعدد اپیلوں کی سماعت کر رہا ہے، اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا نیا قانون: کیا اعتراضات درست ہیں؟

ایک اپیل میں درخواست گزار عابد امین اور احمد ہمایوں نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کےخلاف ریفرنس پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔

درخواست گزار ازگرڈنائن لمیٹڈ (اے این ایل) کے شیئر ہولڈرز ہیں، یہ ایک پبلک کمپنی ہے، اے این ایل نے مختلف مالیاتی اداروں سے قرضے لیے ہوئے ہیں۔

قرضوں کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اے این ایل 22 مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کے تبادلے کے معاہدے میں داخل ہوا ہے اور ساڑھے 10 ارب روپے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کر رہا ہے۔

نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) نے ایگری ٹیک لمیٹڈ کے شیئر خریدنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کی ماتحت کمپنی اے این ایل کے ہر شیئر کی قیمت 35 روپے ہے اور اسے اے این ایل کے بھاری قرضوں کی مد میں متوازن کیا جارہا ہے۔

این بی پی کے سینئر ملازمین جو شریک جرم بھی ہیں، قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ اور ری شیڈیولنگ کے مرحلے کو دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک ہفتے میں 56 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمی

متعدد شکایات ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) کی ذریعے درج کروائی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ نیشنل بینک کے ملازمین نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایگری ٹیک لمیٹڈ کے شیئرز اضافی قیمت پر خریدے جبکہ ان کے شیئر کی حقیقی قیمت 13 روپے 47 پیسے تھی۔

شکایات میں کہا گیا ہے کہ اضافی قیمت میں شیئر خریدنے کے سبب قومی خزانے کو 3 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے این اے اور کے سیکشن سی 31 اور ڈی 31کو نافذ کرنے کے پیچھے قانون سازی کا ارادہ اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ بینکنگ اور مالیاتی معاملات اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق چلائے جائیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فریقین کے درمیان ایک قابل عمل مالیاتی نظام کی تبدیلی اسٹیٹ بینک کی مدد سے کی گئی ہے اس لیے جب تک مرکزی بینک اجازت نہیں دے اس پر سوال، شک یا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

عدالت نے کہا کہ نیب کے پراسیکیوٹر نے اعتراف کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے کبھی اجازت نہیں لی گئی اور مرکزی بینک کے گورنر نے ایسا کوئی حوالہ بھی نہیں دیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کورٹ فیصلہ دیتا ہے کہ این او اے کے سیکشن 31 ڈی کے تحت مرکزی بینک کے گورنر کے ریفرنس کے بغیر درخواست گزار کے خلاف کوئی تحقیقات، تفتیش یا کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

لہٰذا نیب کی جانب سے درخواست گزار کے خلاف کارروائی سیکشن 31 ڈی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے اور درخواست کے خلاف ریفرنس فائل کرنا غیر قانونی ہے۔

عدالت نے نیب کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا جس میں تحقیقات، تفتیش اور ریفرنس کے ساتھ ساتھ احتساب عدالت میں زیر التوا کارروائی بھی شامل ہے۔

تاہم عدالت نے نیب کو درخواست گزاروں اور شریک ملزمان کے خلاف نئی کارروائی شروع کرنے کی اجازت دے دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں