ہمیں وہ عیدیں آج بھی یاد ہیں جب ہم صبح سویرے نئے لش پش کپڑے پہنے ہاتھ میں سویاں لے کر آس پاس ہمسائے میں بانٹنے جاتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب چھوٹی لڑکیوں کا سڑک پر نکلنا، گلی میں کھیلنا اور ہمسائے میں جانا خطرے کا باعث بھی نہیں تھا۔ تب عید شیر خُرمے کی صورت میں ہر گھر سے نکل کر آس پڑوس میں پھیل جاتی تھی اور خواہ مخواہ آس پڑوس سے عیدیاں سمٹ کر ہم بچے بچیوں کی جیبوں اور چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے پرسوں میں سمٹ آتی تھیں۔ جب عید پر عزیز و اقارب اور دوستوں کی طرف سے گھر میں عید کارڈ، مٹھائی کے ڈبوں اور کیک کے انبار لگ جاتے تھے کہ عید ختم ہوجاتی مگر مٹھائیاں اور کولڈ ڈرنکس، گھر میں گھومتی رہتیں۔

تب عید کی خاص عیاشی راکو اور یمی آئسکریم کے پھول دار ڈبے تھے اور عید پر پی ٹی وی کے رنگ برنگے ہنستے کھیلتے ڈرامے عرصے تک یاد رہتے تھے۔ اس وقت عید پر برانڈڈ نہیں بلکہ سیدھے سادے امّاں کے ہاتھ کے سِلے نئے کپڑے ہی سب سے بڑی عیاشی ہوتے تھے۔

کئی دنوں تک انہیں سجا کر رکھتے اور عید آنے کے دن گنتے۔ عید کے دن صبح سویرے اٹھتے اور نئے کپڑے سنبھال سنبھال کر پہنتے اور نخروں سے عید کے روز سجتے سنورتے۔ زندگی میں چیزوں کی بہتات بھی ایک عذاب ہے کہ ہر شے میں سے لطف ختم ہوجاتا ہے۔ پھر چاہے وہ کپڑے ہوں، لوگ ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا ڈیجیٹل معلومات ہو۔

بچپن میں دوستوں کی طرف سے بھیجے گئے عید کارڈ کا انبار جمع ہوجاتا تھا
بچپن میں دوستوں کی طرف سے بھیجے گئے عید کارڈ کا انبار جمع ہوجاتا تھا

یہ وہ وقت تھا جب عیدیاں پرس اور جیبوں میں ٹھونس کر قریبی مارکیٹ تک جانا اور ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کرنا ایک فرض تھا، جب زندگی کی ہر ضرورت، خواہش صرف کچھ غباروں، ٹافیوں اور آئسکریم پر آکر ختم ہوجاتی تھی اور وہ زندگی اور وہ دن حسین تر ہی تو ہوتے ہوں گے۔ جب عید بیت جانے پر سوچتے تھے کہ اُف اب پھر سال بھر انتظار کرنا پڑے گا۔ پھر ہم حقائق کی پرتوں میں لپٹتے جوان ہوتے چلے گئے اور عید کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔

سمجھ داری عجیب زہریلی چیز ہے کہ یہ رشتوں اور چاہتوں کے عنوان بدل دیتی ہے۔ دوستوں اور عزیزوں کی نظروں سے مفاد اور مکاری ٹپکتی دکھائی دینے لگے تو عیدیں صحنوں میں اترنے سے معذرت کر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے ہونے کا مطلب محبتوں سے اعتماد کھو جانا سمجھا جاتا ہے اور جو خلوص اور محبت پر اعتقاد رکھے اس کی پرورش میں گڑبڑ یا کوئی نقص سمجھا جاتا ہے کہ سمجھ دار وہ ہے جو لوگوں کے کھرے کھوٹے پر نظر رکھے اور اسی کے مطابق ان سے معاملات کرے۔

کھرے کھوٹے پر نظر رکھتے ہوئے انسان عیدوں کی اصل خوشی سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے جو اپنے آپ میں تسکین اور راحت مانگتی ہے اور آس پاس مسکراہٹوں، محبتوں اور دوستوں کے ہونے کا احساس مانگتی ہے۔ اب ایسی دنیا میں اتنی محبت اور ایسے دوست کہاں سے ملیں کہ زمانے کی تیز رفتاری خلوص کے ساتھ ساتھ افراد کو بھی نگل گئی ہے۔

آج کی تیز طرار معلومات سے لبریز زندگی میں جتنا تعلقات اور دوستیوں نے نقصان اٹھایا ہے اتنا ہی بڑا ظلم عید کے تہواروں پر بھی ہوگیا ہے۔ اب رشتے ناطے، دوست احباب، عیدیں سمیت سب ڈیجیٹل ہوچکے ہیں۔ اب ملنے ملانے کے بہانے بھی محدود ہوگئے اور خوشی کے ترانے بھی اپنی تاثیر کھو گئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا تو اوپر سے نیچے تک شیر خُرمے، کیک اور مٹھائی کی تصاویر سے بھر جاتا ہے مگر نہ کوئی مٹھاس زبان تک پہنچتی ہے نہ کوئی شیر خُرما گھر تک۔

اب تو شیر خرمے کی مٹھاس بس سوشل میڈیا تک ہی رہتی ہے
اب تو شیر خرمے کی مٹھاس بس سوشل میڈیا تک ہی رہتی ہے

ہر زمانے کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے کی عیدوں کی کیا بات تھی۔ آخر کونسے زمانے کی؟

جب ہم بچے تھے!

سو ہر کسی کو اپنے بچپن کی عیدیں خوبصورت ترین لگتی ہیں۔ اگرچہ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ عیدیں نہیں دراصل وہ عمر خوبصورت تھی جب ہر خوبصورت چیز خوبصورت لگ جاتی تھی۔ وہ لال رنگ کی عینک خوبصورت تھی جس میں سے محدود دکھائی دیتا تھا مگر جتنا دکھائی دیتا وہ خوش رنگ اور حسین ہوتا تھا۔

بچپن کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ انسان محبت پر، خوبصورتی پر اور خلوص پر یقین رکھتا ہے تبھی تو جہاں سے ملے عیدی لے لیتا ہے اور جو پیار کرے اس کی گود میں چڑھ جاتا ہے۔

ہر مذہب ہر اخلاقی کتاب ایک ہی درس دیتی ہے کہ بدگمانی سے بچو، نفرت کا جواب محبت سے دو کہ اگر صرف نفرتوں پر ہی نظر رکھنے لگے تو اس دنیا میں دو قدم بھی چلنا دوبھر ہوجائے۔ زندگی ایک رحمت کی بجائے زحمت ہوجائے گی اور اسی زحمت کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کی تمام تر کتابیں رقم کی جاتی ہیں۔

انسانوں کو انسان رہنے دینا چاہیے اور ان سے محبت اور خلوص کے دیوی دیوتاؤں کی سی خواہشات نہیں کرنی چاہئیں۔ ان سے تعلق بس ہنسنے ہنسانے اور ملنے ملانے تک رکھیں، دل تک مت لائیں کہ شیشے کا یہ محل کرچی کرچی کر جائیں۔ کبھی کسی کے بُرے تاثرات کو نظر انداز کر دینا چاہیے، کبھی کسی کا زہریلا فقرہ ان سنا رہ جانا چاہیے تاکہ زندگی کے باغ میں ہمیشہ خوبصورت خوشبو سے بھرے تازہ پھول کھلتے رہیں۔

نفرت اور زخموں کو ہمیشہ اپنی جیبوں اور ہینڈ بیگ سے جھاڑتے رہیں ورنہ اس کے زہریلے تابکاری اثرات سب سے پہلے ہمارا جینا ہی عذاب کرتے ہیں۔ خوشیوں اور مسکراہٹوں کو بانٹتے رہیے خصوصاً تب جب ان کے لیے دن تک مخصوص ہیں۔ اپنی عید منانے کی کوشش کریں تو دو چار مزید لوگوں کی عید مفت میں ہوجاتی ہے۔ کسی کو دسترخوان پر بلا لیجیے کسی کے لیے غیر ضروری تحفہ لے جائیے اور دے کر بھول جائیے۔ کیا ہر چیز کا حساب رکھنا ضروری ہے؟ خصوصاً جب بات خوشی کی ہو تو اس کی بنیاد محبت ہے، بے غرض اور بے لوث محبت اور تواضع۔

اس عید پر کسی اور کو بھی اپنے دسترخوان پر دعوت دیجیے
اس عید پر کسی اور کو بھی اپنے دسترخوان پر دعوت دیجیے

عیدیں بچوں کی طرح خالص اور معصوم دلوں پر اترتی ہیں۔ زندگی میں پھر سے وہی پرانے زمانے جیسی عیدیں چاہتے ہیں تو بچوں جیسا ہی معصوم اور پیارا دل چاہیے تاکہ پھر سے وہی خوبصورت اور دلنشین عید ہمارے آنگن میں اتر سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں