تصویر: فوزیہ من اللہ
تصویر: فوزیہ من اللہ

'مسز ایدھی'، 'بلقیس آپا'، 'تمام یتیموں کی ماں'، 'مادرِ پاکستان'، 'ممی'، یہ بلقیس ایدھی کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال ہونے والے چند نام اور القاب ہیں۔

بلقیس ایدھی 15 اپریل کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ وہ دل کا دورہ پڑنے کے سبب اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ وہ اپنے کام اور اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے کام میں مسلسل تعاون کے ذریعے لاکھوں زندگیوں پر اثر انداز ہوئیں۔ عبد الستار ایدھی جیسی انسان دوست شخصیت کی بھی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

بڑے ہوتے ہوئے ہر اس پاکستانی کی طرح میں بھی ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی کے کام کو دیکھتی تھی جسے بچوں اور دیگر مشکل میں پھنسے لوگوں کی فلاح کی فکر ہوتی تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی ایمبولینسوں، سرد خانوں، ڈسپینسریوں، یتیم خانوں، اولڈ ایج ہومز، ذہنی صحت کے مراکز اور دیگر کاموں سے معاشرے میں جو اثر ڈالا ہے اسے ہم حیرت سے دیکھتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اس جوڑے کو اس مشکل ترین کام کے لیے راغب کیا۔

جس دور میں کراچی شہر میں قتل و غارت عروج پر تھی، روز اموات ہوتی تھیں اور لوگ اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے تھے، اس وقت ہم ایدھی کی ایمبولینسوں کو لوگوں کو بچاتے، زخمیوں کو اٹھاتے اور میتوں کو دفناتے ہوئے دیکھتے تھے۔ چاہے کوئی قدرتی آفت ہو یا کوئی سانحہ یا پھر کوئی بھی پریشانی یا بحران ہو، یہ جوڑا ہمیشہ وہاں موجود ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ سب کی توجہ کا مرکز رہتے تھے۔

بلقیس ایدھی مجھ سے خود کو ممی کہلوانا پسند کرتی تھیں۔ میری ان سے ملاقات بہت بعد میں ہوئی اور اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ کس طرح ایک عاجز اور سادہ سی نظر آنے والی عورت ایک چٹان بن گئی اور کس طرح ان کی عظیم شخصیت نے ان کے اندر کے عام انسان کو چھپادیا۔

بلقیس ایدھی کی پیدائش 14 اگست 1947ء کو ہوئی تھی۔ انہوں نے کم عمری میں ہی ایک ڈسپینسری میں بطور نرس کام کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ ڈسپینسری ایدھی صاحب چلاتے تھے۔ یہ 1965ء کا سال تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا مزاج کچھ باغیانہ تھا کیونکہ اس دور میں بہت زیادہ مسلمان لڑکیاں نرسنگ کے شعبے میں نہیں جاتی تھیں۔ تاہم وہ کہتی تھیں کہ یہ وہ چیز تھی جس میں انہیں ہمیشہ سے دلچسپی رہی تھی۔ انہوں نے 1966ء میں ایدھی صاحب سے شادی کی اور دونوں نے ایک طویل اور پھرپور زندگی کا آغاز کیا۔

بلاشبہ بلقیس ایدھی ہی ایدھی صاحب کا سہارا تھیں۔ انہوں نے ایدھی صاحب کے کام اور ایک بڑے مقصد کے لیے ان کی اور ان کے گھر والوں کی دی گئی قربانیوں پر یقین رکھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے خود بھی کئی پروگرام شروع کیے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت بچوں کو گود لینے کا پروگرام بھی انہوں نے ہی شروع کیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت نومولود بچوں کو جان سے ماردینے کی حوصلہ شکنی ہوتی تھی اور بچوں کو دیگر خاندانوں کی جانب سے گود لے لیا جاتا تھا۔

اس پروگرام کی کرتا دھرتا وہی تھیں اور اس پروگرام کی وجہ سے ہی پاکستان میں بڑی تعداد میں بچوں کو گود لیا گیا۔ بچہ گود لینے کے خواہش مند ہر خاندان کو بلقیس ایدھی خود پرکھتی تھیں اور اس خاندان کو ان کے کڑے امتحان سے گزرنا ہوتا تھا۔ بچوں کو کس گھر میں جانا چاہیے اس کا تعین کرنے کے لیے ان کا ایک اپنا ہی طریقہ کار تھا۔ بچہ گود لینے کے خواہش مند جوڑوں کے لیے یہ پورا عمل اعصاب شکن ہوتا تھا اور انہیں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ وہ مضبوط اعصاب اور مضبوط شخصیت کو سراہتی تھیں۔ جو بچہ بھی ان تک پہنچتا اسے وہی پیار شفقت اور امید ملتی جو بلقیس ایدھی کی شخصیت کا خاصا تھا۔

بلقیس ایدھی کے اس پروگرام اور انتھک محنت کی وجہ سے ہی پاکستان میں بچوں کو گود لینے کا عمل آسان ہوا، اس کی قبولیت پیدا ہوئی اور اس کے بارے میں بات جیت ہونے لگی۔ اس سے قبل اس حوالے سے گفتگو بند دروازوں کے پیچھے ہی ہوتی تھی۔ وہ اس حوالے سے بہت واضح تھیں کہ ان کا مقصد معاشرے میں بچوں کو گود لینے سے جڑی بدنامی کو ختم کرنا اور خاص طور پر لڑکیوں کو تحفظ دینا تھا۔

اس کے نتیجے میں ان پر بہت سے الزامات عائد ہوئے۔ ان میں یہ الزام بھی تھا کہ یہ پروگرام بدکاری اور غیر ازدواجی تعلقات کے فروغ کا باعث بنتا ہے جس وجہ سے یہ دین کے خلاف ہے۔ بلقیس ایدھی نے بلاخوف اپنا کام جاری رکھا اور بچوں کو گود لینے والے خاندانوں کے حوالے کرتی رہیں، اس دوران جھولا (بچوں کا جھولا ہر ایدھی سینٹر کے باہر موجود ہوتا تاکہ لوگ رازداری سے بچوں کو اس میں ڈال سکیں) قبولیت اور تحفظ کی علامت بن گیا۔

ایدھی فاؤنڈیشن میں بچوں کو گود لینے کے خواہش مند افراد کی طویل فہرست ان کے اس دعوے کی تائید تھی کہ یہ تنقیدی بیانیہ عام لوگوں میں اتنا مقبول نہیں ہے۔ میں نے ایک بار ان سے دریافت کیا تھا کہ بچوں کو گود لیے جانے کے بارے میں وہ کیا سوچتی ہیں؟ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ 'کوئی بھی رشتہ جس کی بنیاد جھوٹ پر ہو طویل مدت میں کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا'۔

جو بچہ بھی ان تک پہنچتا اسے پیار، شفقت اور امید ملتی— تصویر: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
جو بچہ بھی ان تک پہنچتا اسے پیار، شفقت اور امید ملتی— تصویر: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

بلقیس ایدھی کے ساتھ میرا تعلق 2005ء میں شروع ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ میں بچوں کو گود لینے کے عمل کے بارے میں جاننے کے لیے بولٹن مارکیٹ میں واقع ان کے دفتر گئی تھی۔ میں نے سن رکھا تھا کہ وہ بہت سخت سوال جواب کرتی تھیں اور لوگوں کو بہت مشکل میں ڈال دیتی تھیں۔ خیر اس دن وہ اپنے دفتر میں نہیں تھیں۔ میں دوبارہ جانے سے بہت ڈر رہی تھی اور تاخیر کیے جارہی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ کارا فلم فیسٹیول جسے میں چلانے میں مدد کررہی تھی، کے لیے ایک بولی وڈ اداکار نے پاکستان میں کسی یتیم خانے کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے اس دورے کا انتظام کرنے کی ہامی بھرلی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ میں ہی انہیں ایدھی سینٹر لے کر جاؤں۔

میں چاہتی تھی کہ میں بچہ گود لینے کے امیدوار کے بجائے کسی اور حیثیت میں بلقیس ایدھی سے ملاقات کروں۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ انہیں سینما اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا سے کتنا لگاؤ ہے اس وجہ سے مجھے اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کے ساتھ میرے تعلق کی ابتدا ہوگی، ایک ایسا تعلق جس نے بہت دُور تک جانا تھا۔ کئی سالوں تک انہوں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہماری اس پہلی ملاقات کو یاد رکھا اور اس دن کی تصاویر کو سنبھال کر رکھا، یہ الگ بات ہے کہ ان کی خوشی کی وجہ میں نہیں تھی۔

اس ملاقات کے کچھ دن بعد میں ان سے ملنے واپس گئی اور انہوں نے میری بہت مدد کی اور مجھے وہ دیا جسے زندگی کا تحفہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے میں ہمیشہ ان کی مقروض رہوں گی۔ میں نے 2006ء کے بعد ان کے ساتھ کافی وقت گزارا، انہوں نے ہی میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے عدالت میں فائل کرنے کے لیے میرے پہلے اڈاپشن کیسز دیے۔ ان دنوں کوئی وکیل ایسا نہیں تھا جو عدالتی کارروائی کے علاوہ بچوں کو گود لینے کے پورے عمل سے آگاہ ہو۔ یعنی مقامی اور بین الاقوامی اڈاپشن کیسز کی ماہر وکیل بننے کی بنیاد بلقیس ایدھی اور ہمارے مشترکہ تجربات نے رکھی۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ میرے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے اور یہ کہ ہمارے اردگرد موجود پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا کتنا ضروری ہے۔

یہ ان کا معمول تھا کہ وہ مجھے نہ صرف کسی ضروری کام کے لیے بلکہ گپ شپ کرنے کے لیے بھی فون کرلیتی تھیں۔ بعض اوقات یہ کالیں غیر معمولی اوقات میں ہوتی تھیں لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی مسز ایدھی کو نہ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہم دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر زندگی، اس کی خوبصورتی اور درد پر خوب باتیں کرتے۔ ان کی حسِ مزاح لاجواب تھی اور ان کی مسکراہٹ بھی بہت متاثر کن تھی۔ انہیں میٹھے کا بہت شوق تھا۔ کئی مرتبہ انہوں نے مجھ سے کسی کو بتائے بغیر مٹھائیاں منگوائی۔ وہ ذیابطیس کی مریض تھیں اور انہیں میٹھا منع تھا۔ بہرحال ہم نے شوگر فری کوکیز پر معاملہ طے کیا حالانکہ ان کے مطابق ان میں وہ بات نہیں تھی۔

مجھے یہ بات جاننے کا اعزاز بھی حاصل ہے کہ بلقیس ایدھی کو موسیقی، بولی وڈ فلموں، پاکستانی سینما اور ڈراموں کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ کس طرح وہ اپنی جوانی میں برقع اوڑھ کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ سینما میں فلم دیکھنے جایا کرتی تھیں جبکہ ایدھی صاحب سمجھتے تھے کہ وہ کام پر گئی ہیں۔ حالانکہ ان کی اپنی زندگی سادگی اور کفایت شعاری پر مرکوز تھی لیکن وہ جدید فیشن سے باخبر رہتی تھیں۔ انہیں اپنی دیکھ بھال میں موجود ان لڑکیوں کے کپڑے بنانے میں بہت خوشی ہوتی جن کی شادی ہونے والی ہوتی تھی۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں پر بھی توجہ دیتی تھیں اور یہی ان کی شخصیت کا خاصا بھی تھا۔

وہ رشتے بھی کرواتی تھیں اور محبت، رومانس اور انتخاب کی آزادی میں زبردست یقین رکھتی تھی۔ ایسے لاتعداد جوڑے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تو ان کے گھر والے ان کے پیچھے پڑگئے اور انہیں بلقیس ایدھی کے پاس پناہ ملی۔ بلقیس ایدھی کے لیے وہ سب اہم تھے۔ انہیں ان سب کے نام اور ان کے حالات معلوم تھے اور انہوں نے یقینی بنایا کہ ہر ممکن طریقے سے ان کا تحفظ ہوسکے۔ وہ بہت پُرجوش انداز میں بتاتی تھیں کہ انہوں نے ان جوڑوں کے لیے کس طرح پناہ کا انتظام کیا اور ان کے گھر بسانے میں مدد کی۔

ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ معاملات کو بخوبی سمجھتی تھیں اور لوگوں کے کردار کا بھی بخوبی اندازہ لگا لیتی تھیں۔ یہ چیز ان کے بہت کام آتی تھی کیونکہ ان کے اکثر فیصلے صرف جبلت کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ میرے تعلق کے دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب میں نے بچوں کو گود لینے کے عمل میں کچھ چیزوں کے حوالے سے ان کے طریقہ کار سے اختلاف کیا۔ انہوں نے میرے خیالات اور میری 'اعلیٰ طبقے کی حساسیتوں' کو رد کرتے ہوئے مجھے چیلنج کیا۔

اس وقت تو مجھے بہت دکھ ہوا اور غصہ آیا۔ تاہم کئی سالوں بعد مجھے احساس ہوا کہ اس وقت انہوں نے مجھے ایک موقع دیا تھا کہ میں اپنے اندر بے خوفی پیدا کروں۔ ان کے طریقے منطق سے عاری نہیں ہوتے تھے۔ میری زندگی میں ان کا تعاون ایک ایسی چیز ہے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ میں اگر ان سے نہ ملی ہوتی تو آج میں جہاں ہوں شاید وہاں نہ ہوتی۔

بلقیس ایدھی کو جاننے والے ان، کے رشتہ دار، قریبی دوست یہاں تک کہ ان سے تھوڑے وقت کے لیے ملنے والے بھی ان کے جذبے کو یاد رکھیں گے۔ اپنے کام میں آنے والے تمام تر صدمات اور مشکلات کو جھیلنے اور ایک بڑے مقصد کے لیے اپنی خاندانی زندگی کی قربانی دینے کے باوجود انہوں نے اپنی حس مزاح اور زندگی کا جوش برقرار رکھا۔

خدا اور تقدیر پر ان کے کامل ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مضبوط خاتون بھی تھیں۔ وہ قسمت پر بھروسہ رکھتے ہوئے مشکل سے مشکل حالات سے بھی گزر جاتی تھیں۔ میں نے ان سے ہی سکیھا کہ جو چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے اس پر صبر کیا جائے اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر شکر ادا کیا جائے۔ وہ دوسروں کو جس چیز کا درس دیتی تھیں خود اس کی مجسم صورت تھیں۔

ان کی عدم موجودگی کو بہت زیادہ محسوس کیا جائے گا لیکن وہ ان تمام لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی جن کی انہوں نے بے لوث خدمت کی اور ان کی زندگیوں کو تبدیل کردیا۔ خدا انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔


یہ مضمون 24 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد جنید زبیری Apr 27, 2022 09:32pm
بلقیس ایدھی کو خراج عقیدت کے لئے ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں