حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ برقرار رہنے کیلئے فوری خطرے کا سامنا ہے، ماہرین

وزیر اعلیٰ بننے کے لیے ایک امیدوار کو 186 ووٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے — فوٹو: ٹوئٹر
وزیر اعلیٰ بننے کے لیے ایک امیدوار کو 186 ووٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے — فوٹو: ٹوئٹر

الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخاب میں حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ دینے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین کا مقدمہ 6 مئی کو اٹھانے کے بعد قانونی ماہرین کا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ کو ثابت کرنا ہوگا کہ انہیں ایوان میں اکثریت حاصل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) اس بات پر پرامید نظر آتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے 26 منحرف اراکین کا فیصلہ آنے کے بعد ہفتہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلاف اٹھانے والے حمزہ شہباز کو عہدے سے فارغ کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے وکیل مبین الدین قاضی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار اگر الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو اسمبلی رکنیت سے ہٹا دیا تو پھر نومنتخب وزیر اعلیٰ ایوان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھیں گے۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ بن گئے

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں گورنر، وزیر اعلیٰ کو ’اعتماد کا ووٹ‘ لینے کا کہہ سکتے ہیں یا پھر وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔

چونکہ وزیر اعظم شہباز شریف پہلے ہی صدر عارف علوی کو گورنر عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کی تجویز دے چکے ہیں اس لیے امکان ہے کہ جب الیکشن کمیشن کی جانب سے منحرف ہونے والوں کو ’نااہل‘ کرنے کا فیصلہ اس ماہ کے آخر میں آئے گا تو گورنر چیمہ کی جگہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود لے لیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی حمایت کھونے کے بعد پنجاب کے نئے گورنر شاید وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سے ’اعتماد کا ووٹ‘ لینے کا نہیں کہیں گے اور ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی قیادت میں اپوزیشن وزیر اعلیٰ کے خلاف ’تحریک عدم اعتماد‘ پیش کرے گی۔

پنجاب اسمبلی کے 371 اراکین میں سے 183 کا تعلق پی ٹی آئی سے، 10 کا پی ایم ایل (ق) سے، 165 کا پی ایم ایل (ن) سے، 7 کا پیپلز پارٹی سے، 7 آزاد امیداور اور ایک کا تعلق راہ حق پارٹی سے ہے۔

وزیر اعلیٰ بننے کے لیے ایک امیدوار کو 186 ووٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ حمزہ شہباز نے پیپلز پارٹی کے 7، تین آزاد اراکین، ایک راہ حق پارٹی کے رکن اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین، علیم خان اور کھوکھر گروپ کے 26 اراکین کی مدد سے 197 ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چار ’باغی‘ اراکین نے حمزہ شہباز کو ووٹ نہیں دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے رشتہ دار کو ڈی پی او کے عہدے سے ہٹادیا گیا

الیکشن کمیشن کی جانب سے منحرف ارکان کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد حمزہ شہباز کے پاس 171 اراکین کی حمایت رہ جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی حمایت کھونے کے بعد وزیر اعلیٰ برقرار رہنے کے لیے حمزہ شہباز کو ایوان میں سادہ اکثریت ثابت کرنی ہوگی، دوسری جانب 26 منحرف اراکین کی نااہلی کے بعد پی ٹی آئی کے 157، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 4 ناراض اراکین، خواتین کی 5 نشستوں سے (پی ٹی آئی-پی ایم ایل ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے پاس الیکشن میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے سادہ اکثریت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ منحرف ہونے والوں کے پاس ای سی پی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا آپشن ہوگا، اس طرح معاملہ مزید ایک ماہ تک لٹکا رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے 26 منحرف اراکین کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت پنجاب میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے کوئی اور راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن استعمال کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کا حمزہ شہباز کی حلف برداری کا فیصلہ چیلنج کریں گے، پرویز الٰہی

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران پارٹی ہدایات سے انحراف کرنے والے تحریک انصاف کے 26 اراکین کی نااہلی کے لیے ایک ہفتہ قبل الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

پی ٹی آئی نے منحرف اراکین کی نااہلی کے عمل میں تاخیر کرنے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ریفرنس پر فیصلہ دینے کے لیے کم از کم 30 دن لگیں گے۔

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے منحرف اراکین کو 6 مئی کا نوٹس بھیج دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز 6 مئی کو منحرف اراکین کی نااہلی کے بعد اکثریت کھو دیں گے اور اب ہمارے پاس پنجاب اسمبلی میں 174 ووٹ ہوں گے۔

راجا بشارت نے مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کو اب ’ووٹ کو عزت دو‘ کے جھوٹے بیانیے کو بند کرنا چاہیے۔

دریں اثنا ہفتہ کو ایک ویڈیو بیان میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے حمزہ شہباز کے اپنے خلاف بولنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں حمزہ شہباز کو بتانا چاہتا ہوں کہ گیم کھیلی جارہی ہے اور وہ بھی پھنس گئے ہیں‘۔

شیخ رشید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ دونوں پر جلد ہی عدالتیں ان کے خلاف مقدمات میں فرد جرم عائد کرنے والی ہیں۔

حمزہ اور والد وزیر اعظم شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس کا سامنا ہے جس میں وہ 14 مئی تک ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں