روپے کی گراوٹ کا سلسلہ جاری، ڈالر 192 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

اپ ڈیٹ 12 مئ 2022
کرنسی ڈیلر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالر کی قدر جلد 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
کرنسی ڈیلر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالر کی قدر جلد 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کا سلسلہ آج بھی جاری رہا اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 192 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ روز 190 روپے 20 پیسے پر بند ہونے کے بعد ڈالر نے آج دن کے آغاز میں 191 کا ہندسہ عبور کیا اور صبح 11:45 بجے کے قریب 192.20 روپے تک پہنچ گیا جو کہ اب تک ڈالر کی بلند ترین قیمت ہے۔

چیس مین ہٹن بینک کے ٹریژری ہیڈ اسد رضوی نے ویب پر مبنی مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل ’میٹس گلوبل‘ کو بتایا کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 9 فیصد تک گر چکی ہے۔

انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ روسی جارحیت کے نتیجے میں معاشی سست روی اور تیل کی بلند قیمتوں نے دیگر کرنسیوں بشمول بھارتی روپے کو بھی نقصان پہنچایا اور افراط زر میں اضافے کا سبب بنی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر 190 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، اسٹاک مارکیٹ میں 600 پوائنٹس کی کمی

ڈالر کے مقابلے روپے کی اس گراوٹ کو ملک کے بلند درآمدی بل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا میں تاخیر سے بھی جوڑا جارہا ہے۔

گزشتہ روز ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شرح مبادلہ میں اضافے نے معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

روپیہ اپنی قدر بنیادی طور پر درآمدات میں بے قابو اضافے اور برآمدات میں ترقی کی نسبتاً سست رفتار کی وجہ سے کھو رہا تھا، اس کی عکاسی تجارتی خسارے سے ہوئی جو جولائی تا اپریل میں 39 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

کرنسی ڈیلرز نے کہا کہ ڈالر کی زیادہ مانگ کرنسی مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی اہم وجہ ہے، موجودہ حکومت سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو تبدیل کرنے کی شرط نے اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کو مزید ختم کردیا۔

مزید پڑھیں: روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری، انٹربینک میں ڈالر 187 تک پہنچ گیا

مقامی کرنسی کی قدر میں روزانہ کمی ایک سنگین خوف و ہراس سبب بن سکتی ہے کیونکہ سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کا شکار پائے جاتے ہیں، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کا مطلب صارفین کی قوت خرید میں کمی ہے کیونکہ تاجر اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے زیادہ منافع طلب کرتے ہیں۔

کرنسی کے ماہرین اور ڈیلرز کو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں روپیہ مزید تیزی سے گرے گا جب تک کہ کہیں سے آمدن کا امکان نظر نہ آئے۔

کرنسی ڈیلر ظفر پراچہ نے صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر ڈالر کی قدر جلد 200 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

دریں اثنا فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ انٹربینک مارکیٹ، اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں زیادہ غیر مستحکم ہے اور اس کی وجہ سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: طلب بڑھنے کے سبب ملک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ

انہوں نے مزید کہا کہ حج پر جانے کا ارادہ رکھنے والے افراد سعودی ریال کی کمی کی وجہ سے ڈالر خرید رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ ڈالر کی مانگ میں یہ اضافہ عارضی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف اپنے 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حجم کو 2 ارب ڈالر تک بڑھانے پر راضی ہو جائے گا، روپے کی تیزی سے بحالی سے جڑے اس امکان کو آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی کی معزول حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی توانائی کی سبسڈی کو مکمل طور پر واپس لینے سے مشروط کر دیا ہے۔

تاہم حکومت نے اب تک مالیاتی طور پر ان غیر پائیدار سبسڈیز کو واپس لینے کے بارے میں فیصلہ نہیں لیا ہے۔

دریں اثنا درآمد کنندہ اور سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری عبداللہ ذکی نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد بڑھتی ہوئی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا خمیازہ بالآخر صارفین کو بھگتنا پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں